پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟

چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں لوگ پاکستان کی طرف سے مہیا کی گئی سکیورٹی پر بھی سوالات اُٹھا رہے ہیں اور کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سکیورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔
بشام حملہ
BBC
چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بشام میں ہونے والے حملے کی مذمت کی گئی ہے اور پاکستان سے جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں منگل کو ایک مبینہ خودکش حملے میں پانچ چینی باشندے اور ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا۔

مقامی پولیس افسران کے مطابق مبینہ حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی چینی شہریوں کو لے جانے والی گاڑی سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔

یہ خیبرپختونخوا میں کوئی پہلا دہشتگردی کا واقعہ نہیں جس میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا ہو بلکہ اس سے قبل سنہ 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے میں بھی ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی چینی باشندوں کو لے جانے والی بس سے ٹکرائی تھی۔

انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نومبر 2022 کے دوران اس حملے میں ملوث دو ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں بشمول کراچی اور بلوچستان میں بھی متعدد حملوں میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

خیال رہے چین نے پاکستان میں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (سی پیک) کے تحت ملک میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بشام میں ہونے والے حملے کی مذمت کی گئی ہے اور پاکستان سے جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ابھی تک کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پاکستانی فوج نے اس حملے کا الزام ’غیرملکی عناصر‘ پر عائد کیا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بعض غیرملکی عناصر اپنے ذاتی مفادات کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی اور اس کی حوصلہ افزائی میں ملوث ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اپنی قوم اور اتحادی چین کے ساتھ مل کر دہشت گردی میں ملوث عناصر اور ان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ معاونت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘

لیکن چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں لوگ پاکستان کی طرف سے مہیا کی گئی سکیورٹی پر بھی سوالات اُٹھا رہے ہیں اور ان حملوں کو سیکورٹی کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔

بشام حملہ
BBC
مقامی پولیس افسران کے مطابق مبینہ حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی چینی شہریوں کو لے جانے والی گاڑی سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں

کیا چینی شہریوں پر حملہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟

پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت بڑا سکیورٹی فیلیئر (ناکامی) ہے اور میں جاننا چاہوں گا کہ چینی انجینیئرز اور تکنیکی ماہرین کی سکیورٹی کے لیے کیا اصول وضع کیے گئے تھے۔‘

ماضی میں مشاہد حسین سید کئی بار وزیر بھی رہے ہیں اور حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے ہر حملے کے نیتجے میں چینی حکومت کا اپنی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی قابلیت پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب بھی پاکستانی وزیراعظم اور صدر کی ملاقات چینی رہنماؤں سے ہوتی ہے تو ’چینی شہریوں کی سکیورٹی کا معاملہ چینی رہنماؤں کی طرف سے ترجیحی بنیاد پر اُٹھایا جاتا ہے۔‘

پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے متعدد اکثر رینجرز، فوج لیویز اور پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن متعدد اوقات میں حکومت کی جانب سے ان افراد کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس بنانے کے بھی اعلانات سامنے آئے ہیں۔

اسلام آباد میں تعینات ایک سکیورٹی افسر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک ’سی پیک یونٹ‘ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹبلری کو بھی اکثر اوقات تعینات کیا جاتا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سکیورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔

سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک تجزیہ کار عبدالباسط اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہر دہشتگرد حملہ ہی سکیورٹی کی ناکامی ہوتا ہے لیکن بشام میں ہونے والا حملہ ایک بڑی ناکامی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2023 میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اوروہاں کام کرنے والے چینی انجینیئرز کی سکیورٹی کے لیے رینجرز، لیویز اور واپڈا اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنائی جانی تھی۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’حملے کے وقت یہ ٹاسک فورس کہاں تھی او کیا کر رہی تھی یہ سوال ہوں گے اور ہونے بھی چاہییں۔‘

داسو حملہ
Getty Images
سنہ 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 9 چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے

پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی؟

لیکن پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے پہلے ہی ’ایس او پیز‘ (سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) موجود ہیں لیکن ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اسلام آباد میں ملک کی سکیورٹی صورتحال اور چینی باشندوں پر ہونے والے حملے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور سکیورٹی حکام نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے بعد پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بشام واقعے کی تحقیقات ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے کروائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی چینی شہری کسی بھی ایئرپورٹ پر اُترتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دی جاتی ہے تاکہ سکیورٹی کا انتظام کیا جا سکے۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق ’ایس او پیز میں اگر کوئی کمی ہے تو اسے دور کیا جائے گا۔‘

وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ ’چاہے چینی شہری ہوں، ملک کی حساس تنصیبات ہوں یا ہمارے اپنے شہری ہوں، ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا۔‘

ان کے مطابق ’سی پیک اور سی پیک کے علاوہ منصوبوں پر مامور چینی افراد کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.