آٹھویں تراویح

آج کی تراویح میں نویں پارے کے پندرہویں رکوع سے دسویں پارے کے سترہویں رکوع تک تلاوت کی جائے گی۔ یہ تراویح سورہ انفال سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر پر تبصرہ فرمایا ہے۔ یہ پہلی جنگ ہے جو کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان ١٧ رمضان سن ٢ ہجری میں بدر کے مقام پر لڑی گئی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ مدینہ طیبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آجانے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز مل گیا تھا۔ پورے عرب سے مسلمان جو اکا دکا قبیلوں میں تھے یہاں آ آ کر پناہ لے رہے تھے اور مکہ سے بڑی تعداد میں ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کی منتشر قوت ایک جگہ جمع ہوگئی تھی اور قریش کے لیے یہ بات سخت ناگوار تھی کہ مسلمان اس طرح ایک بڑی طاقت بن جائیں چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ایک تجارتی قافلہ کی حفاظت کے بہانے مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں اور مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ کردیں۔

ان سنگین حالات میں ١٧ رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر مقابلہ ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں تو اللہ کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلائے اور انتہائی خشوع و خضوع سے عرض کرنا شروع کیا : “ اے اللہ ! یہ قریش ہیں جو اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں کہ تاکہ تیرے رسول (صلی اللہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ثابت کریں-خداوند ! بس آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی!

آخر کار اللہ کی طرف سے مدد آگئی اور قریش اپنے سارے اسلحہ اور طاقت کے باوجود ان بے سروسامان جاں نثاروں کے ہاتھوں شکست کھا گئے- کافروں کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قیدی بنائے گئے۔ بڑے بڑے سرداروں اور ابو جہل کا خاتمہ ہوگیا اور کافروں کا سارا سامان مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آیا-

اللہ تعالٰی نے اس جنگ اور اس کے حالات پر تبصرہ فرماتے ہوئے فخر کا اظہار کرنے کے بجائے مسلمانوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور بتایا کہ اس فتح میں اللہ کی تائید و نصرت کا کتنا بڑا ہاتھ تھا-فرمایا ! “ جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے- جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے پے درپے بھیج رہا ہوں۔ بس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا- بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا- مومنوں کے ہاتھ کو اس کام میں استعمال ہوئے تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی سے گزار دے۔

اے ایمان والوں ! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر لبیک کہو جبکہ اس کا رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں بخشنے والی ہے یعنی جہاد، اور بچو اس فتنہ سے جس کی شامت خاص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنہوںنے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا بھی دینے والا ہے۔

مکہ کا وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تم کو قید کردیں-یا تم کو قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کردیں- وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چالیں چل رہا تھا- اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے- اس وقت بھی وہ یہی بات کہہ رہے تھے کہ “خدایا ! اگر واقعی حق یہ ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی اور عذاب لے آ!“ اس وقت تو اللہ ان پر عذاب لانے والا نہیں تھا کیونکہ تم ان میں موجود تھے- یہ اللہ کا قاعدہ نہیں ہے کہ اس سے استغفار کرنے ولے موجود ہوں اور وہ انکو عذاب دے دے۔ لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روک رہے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں۔ اس کے جائز متولی تو صرف اہل تقویٰ ہی ہوسکتے ہیں۔ اے ایمان لانے والوں ! ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے- پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائیں- تو اللہ ان کے اعمال دیکھنے والا ہے اور اگر نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔

اس موقع پر یہ بھی واضح کی گیا کہ مال غنیمت حقیقت میں لڑنے والوں کا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کا انعام ہے اس لئے اپنی مرضی سے اس کے مالک مت بنو۔ چنانچہ اس کا پانچواں حصہ اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، اور مسافروں کے لیے باقی چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں کے لیے ہے۔

اے ایمان لانے والوں ! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو- اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی- صبر سے کام لو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے- اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی- جن کافر قوموں سے تمہارا معاہدہ ہو ان کے متعلق بتایا کہ اگر کسی قوم سے تمہیں خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کا معاہدہ اعلانیہ اس کے آگے پھینک دو-یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا -اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے انکے مقابلے کے لیے مہیا کر رکھو تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے-اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں حق کے مخالفوں میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہونگے۔

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی مدد کی وہی سچے مومن ہیں، ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے، اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمہارے ساتھ مل کر دین کے قیام کی جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم میں شامل ہیں-

سورہ انفال کے بعد سورہ توبہ ہے۔ اس سورت میں پہلے ان مشرکین سے برائت کا اعلان کیا جنہوں نے پہلے تو امن و صلح کے معاہدے کئے تھے مگر پھر ان کی خلاف وری کر کے توڑ دئے- جنہوں نے معاہدے قائم رکھے تھے۔ انکے متعلق یہ اعلان فرمایا کہ مدت پوری ہوجانے کے بعد یہ معاہدے بھی ختم کردئے جائیں اور ان سب سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی رہے گی جب تک اسلام نہ قبول کرلیں-اہل کتاب کے متعلق بھی فرمایا کہ ان سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ یہ تمہاری ماتحتی قبول کرلیں اور تمہیں جزیہ ادا کرنے کے پابند ہوجائیں-

اس کے بعد تفصیل کے ساتھ منافقین کی خبر لی اور انکے بارے میں ہدایت کی کہ اب ان کا سختی سے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے یہاں تک کہ یا تو سچے مسلمان بن جائیں یا پھر مشرکین اور اہل کتاب میں سے جن کے ساتھ بھی انکا تعلق ہے ان کے انجام میں شریک ہوجائیں- گویا اس موقع پر ان تینوں گروہوں کے بارےمیں جو اس وقت مسلمانوں کے کھلے یا چھپے دشمن تھے واضح پالیسی کا اعلان کردیا گیا- پارے کے آخر میں فرمایاََ کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان پر سخت بن جاؤ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اﷲ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم خوب صدقہ کریں گے اور خوب نیکیاں کرنے والوں میں سے ہونگے، مگر جب اللہ نے اپنا فضل عطا فرمایا تو اس میں بخیل بن بیٹھے اور برگشتہ ہوکر منہ موڑ لیا اسی کی پاداش میں اللہ نے ان کے دلوں میں قیامت تک کے لئے نفاق جما دیا۔

اسی سورہ میں زکوٰت کے مصارف مقرر کئے گئے جو آٹھ ہیں:
(١)غریبوں کی آزادی کے لیے ( ٢) محتاجوں کے لیے ( ٣) نظام زکوٰت کےکارکنوں کے لئے ( ٤) تالیف قلب کے لیے ( ٥) غلاموں کی آزادی کے لئے ( ٦) قرضداروں کی مدد کے لئے ( ٧) اللہ کی راہ میں ( ٨) مسافروں کے لیے۔

جہاد کے سلسلہ میں کمزوروں، بیماروں، اور ان لوگوں کو رخصت عطا کی گئی جنہیں خرچ کرنے کی استطاعت نہیں جبکہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( کے دین ) کے سچے خیر خواہ ہیں، اللہ غفور الرحیم ہے۔ اللہ کی ناراضی توان سب پر ہے جو رخصت مانگتے ہیں حالانکہ وہ مالدار ہیں۔ یہ لوگ خانہ نشیین عورتوں کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہوئے تو اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی۔ اب یہ اس حقیقت کو سمجھنے سے محروم ہوگئے ہیں کہ ان کی اس روش کا اللہ کے ہاں کیا نتیجہ نکلنے والا ہے-

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ اللہ تعال ہم سب کو قرآن پڑھنے کی، اس کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ اس قرآن کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہت بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451593 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More