ہم اپنے کردار کے خود امین ہیں

یہ ساری کائنات فطرت کے عین تقاضوں پر بنائی گئی ہے۔ بنی نوع انسان کی تخلیق بھی اسی فطرت پر ہوئی ہے۔ اور ہر انسان فطرتاً مسلمان پیدا ہوا ہے کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اور اللہ کا پسندیدہ دین بھی یہی ہے۔انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی تربیت اور ہدایت کا بندوبست بھی فرمایا گیا اور,اللہ نے اپنے پہلے انسان کو بھی بنی بنا کر بھیجا۔جیسا کہ سورہ التین کی آیات 4 تا 6 میں بیان ہوا کہ "بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہےپھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔مگر جو ایمان لائے اور نیک کام کیے سو ان کے لیے تو بے انتہا بدلہ ہے "۔ زرا غور کریں تو پتہ چلا کہ فطرت اور ابتدا میں تو نیکی اور اچھائی ہے یہ انسان کا عمل اور کردار ہے جو اسےپستی کی طرف لے جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر قرآن میں سورہ شمس کی آیات 8 تا 10 میں ارشاد ہوا کہ "پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی۔بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا " یہاں یہ بات واضح ہے کہ انسان اپنے کردار سےہی روح کو پاکیزہ اور آلودہ کرتا ہے۔ کیونکہ سورہ الدھر کی تیسری آیت میں ارشاد رب تعالیٰ موجود ہے کہ "بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا"۔ اب چونکہ انسان کی اچھائی اور برائی اس کے اختیار میں ہے تو ظاہر ہے اس اختیار کے نا جائز استعمال پر سزا اور جزا کا تصور بھی ہونا چاہیے ورنہ تو انسان کی تربیت و ہدایت اور اس پر اچھے برے اعمال کی خود مختاری اور آزمائش بے مقصد اور ادھوری رہ جاتی ہے اور پھر سورہ البقرہ کی آیت نمبر 286 میں یوں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ "اللہ کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا، نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہوگا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی" اور سورہ الانعام کی آیت 164میں اس کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے کہ "اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"۔
ان آیات قرآنی سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے اچھے برے اعمال اور نیک و بد کردار کا خود امین اور جوابدہ ہے۔ اور عدلِ خدا وندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔کہ جو جیسا کرے گا وہ ویسا بھرے گا ۔انسان اپنے عمل و کردار کا اس حد تک امین ہے کہ روز جزا اس کے اپنے اعضا ۓبدن خود ہی اس کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ قرآن مجید کے دل یعنی سورہ یٰسؔ کی آیت نمبر54 میں ارشاد خدا وندی ہے کہ"پھر اس دن کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تم اسی کا بدلہ پاؤ گے جو کیا کرتے تھے"۔ اور آیت نمبر65 میں فرمایا ہے کہ"آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہمارے ساتھ ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے اس پر جو وہ کیا کرتے تھے"۔ یعنی ہمارے ہاتھ پاؤں ہی ہماری کارگزاری اور خلاصہ ِزندگی بیان کر دیں گے۔
پس ثابت ہوا کہ انسان نہ صرف اپنے عمل و کرادر کا امین اور جواب دہ ہے بلکہ اچھائی اور برائی کی تمیز اور ان کی انجام دہی میں خود مختاری اور آزادی کے ساتھ اسے سزا و جزا کے متعلق بھی خبردار کر دیا گیا ہے۔ اور یوم حساب پر اس کےساتھ پورا پورا انصاف بھی کیا جاۓ گا۔ اور سورہ زلزال کی آیت نمبر 7 اور 8کے مطابق وہ اپنے اعمال کے متعلق زرہ برابر اچھائی اور زرہ برابر برائی بھی دیکھ لے گا۔اور یہ ہمیشہ یاد رہے کہ جس ذات نے اس کائنات کو خلق کیا ہے وہ بڑا باریک بین ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم پر رحم فرماۓ اور ہمارے اعمال کی بابت ہم پر سختی نہ کرے آمین۔

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.