بخدمت جناب نمائندہ آئی ایم ایف برائے پاکستان


ہائے ہائے..

آپ اسے اپنی ہیلو ہائے نہ سمجھیں بلکہ پاکستانی غریب عوام کی ہائے ہائے سمجھیںجو اپنے اپنے شعبوں میں گدھوں کی طرح کام کرتی ہیں اوران سے سیاست میں آنیوالے بڈھے بابے اور لونڈے لپاڑے کتوں والے کام لے رہے ہیں وہی کتے جو گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور ہر کوئی انکی تشریف کی ٹوکری پر لات مارتا ہے. یہ کتے اور کچھ نہیں کرسکتے بس چیاﺅں چیاﺅ ں کرکے بھاگ جاتے ہیں بس تقریبا ہمارا حال یہی کتوں جیسا ہے کیونکہ ہم پرمسلط ہونیوالے حکمران ، بیورو کریٹس ہمیں ٹیکس دینے کی مشین سمجھ بیٹھے ہیں اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کے غریب عوام میں جینے کی ہمت بھی ختم ہوگئی ہیں . تبھی تو پاکستانی اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر خودکشیوںآتی ہے.، لیکن لگتا نہیں کیونکہ انگریزی اخبار میں یہ خبریں چھپتی نہیں اور اردو آپ کو آتی نہیں ہوگی نہ ہی آپ کو کوئی اس بارے میں آگاہ کرتا ہوگا. بس ہمارے اسی ہائے ہائے کو آپ ہماری طرف سے ہائے ہائے ہی سمجھیں.

جناب نمائندہ آئی ایم ایف برائے پاکستان

جب کبھی بھی آپ لوگوں سے معاہد ہ ہوتا ہے ہمارے مہان معیشت دان جنہیں اپنے گھر میں بھی کوئی نہیں پوچھتا کہ سبزی پکانی ہے یا دال ، وہ ہمیں ٹی وی پر آکر بھاشن دینا شروع کردیتے ہیں کہ ملکی معیشت کیلئے یہ بہت ضروری ہے ان میں ایسے بڈھے اور بابے بھی ہیں جن کی پاﺅں قبر میں ہیں اور کسی بھی وقت غڑاپ کرکے اندر جاسکتے ہیں لیکن وہ یہ غریب عوام کو بھاشن دیتے وقت اس قبر کو بھول جاتے ہیں اور بھاشن پر بھاشن دیتے ہیں.اس میں غلطی ان کی بھی نہیں کیونکہ انہیں جو پیسے اور فنڈز ملتے ہیں اسی بھاشن کی ملتے ہیں ، کسی کے پاس عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں بس ہر کوئی بس کے اندر سامان بیچنے والے سیلز مین کی طرح چھابڑی اٹھا کر آجاتا ہے اور شروع ہو جاتا ہے.

مسٹر نمائندہ آئی ایم ایف .. آپ ناراض نہ ہوں ہمارا ملک 1958 سے قرضوں پر چل رہا ہے جو آج 2024 تک چل رہے ہیں اب پتہ نہیں کہ یہ قرضے کہاں جاتے ہیں کیونکہ آج بھی غریب عوام کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ سر چھپاتے ہیں تو پاﺅں نظر آتے ہیں اور اگر سائیڈ پر سونے کی کوشش کرکے چادر اپنے اوپر ڈالتے ہیں تو پھر تشریف کی ٹوکری نظر آتی ہیں ، ان حالات میں آپ کی جانب سے ہر دفعہ یہی بھاشن سرکاری اخبارات ، ٹی وی چینل اور مخصوص بابو کے ذریعے عوام کو ملتا ہے کہ بس کچھ اور دو تاکہ حکومت چل سکے ، ہمیں نہیں پتہ کہ حکومت کدھر ہے کیونکہ نانبائی سے لیکر سبزی فروش تک اور قصائی سے لیکر ٹیکسی ڈرائیور تک اپنی حکومت کے مالک ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ، یہی صورتحال بیورو کریسی کی بھی ہے .شکر کریں کہ آپ کبھی پاکستان کے سرکاری ہسپتال نہیں گئے ورنہ اپنی زندگی کو روتے ، مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں ، جبکہ سیٹھ اور بیورو کریٹ موٹے ہوتے جارہے ہیں ، جن کی بڑی بڑی کرسیاں ہیں ان کی مراعات بڑھتی جارہی ہیں ان کے کوارٹر بنگلوں میں تبدیل ہوگئے جو پہلے سے بنگلوں کے مالک تھے وہ بیرون ملک جائیدادوں کے مالک بن گئے ہیں لیکن ان کی حرص کم نہیں ہورہی.

اب آپ یہ نہ کہیں کہ اس میں ہماری عوام کی غلطی ہے ، ہم تو 1947سے لیکر آج تک "آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے"کرتے نظر آتے ہیں ، آپ نے ہمارا ڈانس بھی دیکھا ہوگا کہ ہم غریب عوام کتنی اچھی طرح ڈانس کرتے ہیں ، یہ الگ بات کہ ڈانس ہمارے مذہب میں حرام ہیں لیکن ہم نے اعضاءکی شاعری کے نام پر اس مملکت اسلامیہ میں اسے حلال کیا ہوا ہے ،

جناب نمائندہ آئی ایم ایف !

ہماری چھوٹی سے عرضی ہے کہ آپ گیس اور بجلی مہنگی کرنے کے بجائے ان سیاستدانوںسے جو اس ملک پر مسلط کئے جاتے ہیں کے اثاثوں سے یہ وصولی کریں خواہ وہ کوئی بھی ہو کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو ، مذہب کے نام پر آنیوالے سیاستدان ہوں ، یا صوبائی تعصب کے نام پر آنیوالے حکمران ہوں ، یا پھر ان لوگوں سے وصولی کریں جنہوں نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں دینے کیلئے اپنے بندے بھرتی کئے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ، کوئی سسٹم نہیں ، کبھی آپ لوگوں نے سیاستدانوں کے اثاثے چیک کئے ہیں کہ ان کے اثاثے کس طرح بڑھ رہے ہیں .بیشتر عوامی خدمت کے نام پر دکانداری کرنے والے سیاستدانوں کی اکاﺅنٹ بیرون ملک ہیں خدارا ان کے اکاﺅنٹ چیک کریں اور ان سے وصولی کریں نہ کہ غریب عوام سے . کیونکہ ہمارے پاس اب دینے کیلئے کچھ نہیں رہا.بس سانسوں کی آمد کو اگر زندگی سمجھتے ہیں تو ہم زندہ ہیں ورنہ ہماری جینے کی آس بھی ختم ہو چکی ہیں.

جناب نمائندہ آئی ایم ایف برائے پاکستان!
اس مملکت خداداد میں ایسے ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں جن کا کوئی کام ہی نہیں لیکن ان کیلئے فنڈز نکالے جاتے ہیں جس طرح پوسٹل سروسز ہے ، ای میل کے اس دور میں کون خطوط بھیجتا ہے اور وہ کتنے محفوظ ہوتے ہیں یہ بڑا سوالیہ نشان ہے ، اس کے اثاثے پورے ملک میں ہیں ، اسی طرح متعدد ایسے ادارے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں ان میں کام کرنے والے ملازمین نہ صرف ملکی خزانے پر بلکہ اس عوام پر بوجھ ہیں آپ اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے ، اس ملک میں سوئی گیس تک نہیں لیکن یہاں پر ہزاروں ملازمین بیٹھے ہیں جنہیں کروڑوں روپے دئیے جاتے ہیں ، بجلی بھی نہیں لیکن یہاں پر انہیں مفت میں بجلی فراہم کی جاتی ہیں.آپ بیورو کریسی کی عیاشیوں کے بارے میں کیوں سوال نہی اٹھاتے کہ اس غریب ملک کے بیورو کریٹس کو کس طرح کی گاڑیاں دی جاتی ہیں اور وہ فیول کی مد میں کتنے فنڈز نکالتے ہیں ، اسی طرح پنشن کا نظام بھی یکساں رائج کرنے کی ضرورت ہے یہاں پر لاکھوں روپے پنشن وصولی غریب عوام کے ٹیکسوں سے کی جارہی ہیں لیکن بدلے میں غریب عوام کو مل کیا رہا ہے اس بارے میں حکمران بھی خاموش ہیں اور آپ بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں.

مملکت پاکستان کے70 فیصد آبادی پیدل ، موٹر سائیکل یا پھر پبلک بسوں میں سفر کرتی ہیں جبکہ بقایا تیس فیصد حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ، ایلیٹ کلاس کیساتھ لاکھوں اور کروڑوں کی گاڑیاں ہیں جس پر برطانیہ طرز میں ماہانہ بنیاد پر روڈ ٹیکس مسلط کرنے کی ضرورت ہے کہ جو جتنی مہنگی گاڑی لے گا وہ اپنی گاڑی کے حساب سے ماہانہ حکومت کو ادا کرنے کا پابند ہوگا.یہاں پر غریب رکشہ ڈرائیور سے لیکر چھابڑی فروش اور کروڑوں کی گاڑی میں پھرنے والے تاجر ، افسر پر یکساں ٹیکس ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں.ہمارے ساتھ ایسا ڈرامہ سردی میں کیا جاتا ہے کہ گیس مہنگی کی جاتی ہیں جبکہ گرمی میں بجلی مہنگی کی جاتی ہیں.جس میں غریب طبقہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے. جبکہ جن لوگوں نے عیاشیاں کی ہیں ان کے مزے ہیں .

جناب نمائندہ آئی ایم ایف برائے پاکستان!
ٹھیک ہے آپ گورے ہیں لیکن ہمیں ان کالے انگریزوں سے نجات دلوائیے کیونکہ انہیں تو صرف اپنا آپ نظر آتا ہے نہ کہ غریب عوام ، ان پر لگنے والے ٹیکس انہیں نظر نہیں آتے ، نہ ہی آپ کو نظر آتے ہیں ، برائے مہربانی آنکھیں کھول لیں اور ہمارے نام پر دئیے جانیوالے قرضوں کو دیکھ لیں کہ آیا اس ملک کے غریب عوام اسے دینے کی سکت رکھتے بھی یا نہیں ، کیونکہ یہ کالے انگریز جس میں ہر کوئی شامل ہیں سیاستدان سے لیکر بیورو کریٹس اوربڑے بڑے تاجر اور ان کی چمچہ گیری کرنے والے صحافی نما گدھ جنہیں صرف عوام کو بھاشن دینے کیلئے رکھا گیا ہے .آپ اس خط کو سیریس لیں اور ہمیں ان کالے انگریزوں کے ظلم سے نجا ت دلائیں

العارض
غریب پاکستانی عوام
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420993 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More