ایک پیارا خاندان

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے. آج چند باتیں مختصر طور پر عرض کرنی ہیں.

تبدیلی ہو سکتی ہے
پاکستان کے داخلی اور خارجی حالات کافی خراب ہوچکے ہیں. ملک کے تمام خزانے تقریباً خالی ہیں. زرّ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے خرچ ہو رہے ہیں. بیرونی قرضہ اتنا ہو چکا ہے کہ اُسے ادا کرنے میں پورا ملک گروی رکھا جائے تب بھی کام نہ بنے. حکمرانوں کو پتہ ہے کہ یہ حکومت’’فانی‘‘ ہے اس لئے وہ اندھا دُھند مال جمع کر رہے ہیں. مہنگائی نے قوم کی گردن توڑ رکھی ہے. ملکی تجارت آزاد ہو چکی ہے، جو چاہتا ہے مہنگائی بڑھا دیتا ہے. امریکہ کے مطالبات حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں. اب اُس کا مطالبہ ہے کہ ایٹمی پروگرام ختم کرو، انڈیا سے یاری لگاؤ اور کشمیر کو بھول جاؤ. ملک میں تین ادارے الگ الگ حکومت کر رہے ہیں. فوج، عدالت اور وفاقی حکومت. حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ امریکہ اور انڈیا سے مذاکرات کے دوران اُن کا ہر مطالبہ قبول کر کے آجاتے ہیں. ان مطالبات کو پورا کرنے کے لئے فوج کو جگہ جگہ لڑنا پڑتا ہے. اس لڑائی میں فوجی جوان مارے بھی جاتے ہیں. اور افسروں کے خواب بھی چکنا چور ہوتے ہیں. فوج میں تو لوگ روشن مستقبل کے لئے بھرتی ہوتے ہیں. کوئی اپنے ملک والوں سے لڑنے مرنے کو تو نہیں آتا. فوج اب اس صورتحال سے تنگ آچکی ہے. عدلیہ اپنی آزادی کا زور لگا رہی ہے. مگر اُس کے مقابلے میں فوم کے گدّے ہیں جو زور دیا جائے تو دبتے جاتے ہیں مگر جیسے ہاتھ ہٹایا جائے واپس پہلے جیسے ہوجاتے ہیں. عدلیہ چینی سستی کرتی ہے مگر بازار میں عدلیہ کی نہیں پولیس کی چلتی ہے. اور پولیس کو وزیر داخلہ صاحب چلاتے ہیں جن کی اپنی تین سالہ سزا ابھی صدر نے معاف کی ہے. قانونی زبان میں سزا یافتہ آدمی کو ’’مجرم‘‘کہا جاتا ہے. اور اگر کیس چل رہا ہو اور ابھی سزا نہ ہوئی ہو تو اُسے’’ملزم‘‘ کہتے ہیں. کراچی میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا سلسلہ تیزی سے چل رہا ہے. لوگ دھڑا دھڑ مارے جارہے ہیں. اور اُدھر بلوچستان میں بھی روزانہ آٹھ دس لاشیں گرتی ہیں. ان تمام حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید ملک میں کوئی بڑی تبدیلی ہو جائے. جب ہر طرف آپریشن چل رہے ہوں تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے. دعا کریں جو کچھ ہو خیر والا ہو. اور اگر کوئی تبدیلی ہو تو وہ اُمتِ مسلمہ اور اہل پاکستان کے لئے خیر کا پیغام لائے. یا اﷲ رحمت فرما.

رجب اور شعبان کی دعا کا اہتمام
آج الحمدﷲ’’ رجب ‘‘ کی ایک تاریخ ہے. رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے. اور یہ حُرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے. چنانچہ آج کی ہجری اسلامی تاریخ یوں لکھی جائے گی یکم رجب ۱۳۴۱ھ ÷. آپ سب سے گزارش ہے کہ رجب اور شعبان کے مہینے میں اس بابرکت مسنون دعا کا خوب اہتمام فرمائیں.
اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
اس دعا کی برکت سے انشا اﷲ. رجب اور شعبان کے مہینے کی برکات بھی نصیب ہوں گی. اور رمضان المبارک بھی اچھا گزرے گا.

کچھ اپنی فکر بھی
الحمدﷲ مرکز عثمان(رض) و علی(رض) میں’’دورہ تربیہ‘‘ پابندی سے جاری ہے. اس دورہ میں شرکت کرنے والے خوش نصیب افراد عجیب ایمان افروز تاثرات کا اظہار کرتے ہیں. ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ’’دورہ تربیہ‘‘ تو ماشا اﷲ اپنے اندر کا ’’ایکسرے‘‘ ہے. دوسرے تیسرے دن ہی اپنی تمام برائیاں سامنے آجاتی ہیں. اور اُن کے ازالے اور اصلاح کی فکر دل میں پیدا ہو جاتی ہے. اکثر لوگوں کے ایسے ہی تاثرات ہوتے ہیں. مگر کچھ لوگ کسی جگہ اور کسی بھی ماحول سے فائدہ نہیں اٹھاتے. اُن کو صرف تنقید کرنے اور دوسرے کے عیب دیکھنے کا شوق ہوتا ہے. اُن کے کان ہر وقت تنقید سننے کے لئے. اور اُن کی زبانیں ہر کسی پر اعتراض کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں. کراچی کے ایک صحافی اتفاقاً حج کرنے گئے تو واپسی پر وہاں کے تمام معاملات پر ایک تنقیدی مضمون لکھ مارا. حضرت لدھیانوی شہید(رح) نے اُس مضمون کا دندان شکن جواب تحریر فرمایا. اسی طرح کے ایک تنقیدی مزاج شخص نے دورہ تربیہ میں شرکت کے بعد. مجھے خط لکھا اور اس میں دیگر چند باتوں کے علاوہ نہایت شدّت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ سالن میں شوربہ کم ہوتا ہے. اور کبھی تو بالکل نہیں ہوتا. اے اﷲ کے بندے! آپ وہاں اپنی اصلاح کے لئے گئے تھے یا شوربہ پینے کے لئے؟. آپ کو اپنی اصلاح مطلوب تھی یا مرکز والوں کی؟. انسان کو چاہئے کہ کبھی تو اپنی فکر بھی کر لے. ہر وقت دوسروں کے عیبوں کی فکر انسان کو برباد کر دیتی ہے. تنقیدی مزاج انسان اکثر محروم رہتا ہے. اُسے بار بار غیبت کرنے اور سننے کا گناہ کرنا پڑتا ہے. اور اُس کے اپنے ذاتی حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں. ایسا آدمی کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے تو جلد بدگمان ہو جاتا ہے. ایک صاحب کسی بزرگ کے پاس بیعت کے لئے گئے اور نماز میں انُ سے’’ضاد‘‘ کا مخرج سن کر بدگمان ہوگئے. اور بیعت کئے بغیر واپس آگئے.

اﷲ کے بندوں! حضرات انبیا علیہم السلام کے علاوہ دنیا میں کون ہے جو ’’بے عیب‘‘ ہو؟. اگر عیب دیکھتے رہو گے تو کس سے کچھ حاصل کرو گے؟. کبھی دو منٹ کا ٹائم خود کو بھی دو اور اپنے عیب دیکھو!. ہزاروں لوگوں کو دورہ تربیہ سے توبہ کی توفیق ملی. مگر ایک صاحب ان سات دنوں میں ’’اﷲ اﷲ‘‘ کی صدا کے دوران بھی عیب ڈھونڈتے رہے اور دل ہی دل میں جلتے اور کڑھتے رہے. کاش آپ آتے ہی مجھے پیغام بھیج دیتے کہ میں ذکر کرنے، استغفار کرنے اور اﷲ والوں کی صحبت پانے کے لئے نہیں آیا بلکہ شوربا پینے آیا ہوں تو آپ کے لئے شوربے کی دیگ کا بندوبست کر دیا جاتا. باقی جہاد اور مجاہدے میں تو قربانی لگتی ہے. اور جو جتنی قربانی پیش کرتا ہے اُتنا ہی نفع پاتا ہے.

دورہ تربیہ کے لئے تشریف لانے والوں سے عرض ہے کہ صرف یہ سات دن آپ اپنی فکر کریں. دوسروں کے عیب اور غلطیاں نہ دیکھیں. قبر میں ہر ایک نے اکیلے جانا ہے اور ہر ایک نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے. صرف ان سات دنوں کے لئے عز م کر لیں کہ نہ تنقید کریں گے اور نہ تنقید سوچیں گے. بس صرف اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کریں گے. آپ میں سے جس نے ’’دورہ تربیہ‘‘ میں اس بات پر عمل کیا وہ انشا اﷲ عجیب احوال دیکھے گا.

ایک پیارا خاندان
تبع تابعین. اُن حضرات کو کہتے ہیں جنہوں نے ایمان کے ساتھ حضرات تابعین کی صحبت پائی ہے. اور تابعین وہ ہیں جنہوں نے ایمان کے ساتھ حضرات صحابہ کرام(رض) کی صحبت پائی ہے. تبع تابعین میں ایک بڑے مجاہد گزرے ہیں. وہ حدیث اور فقہ کے امام بھی تھے اور اولیا اﷲ کے سردار بھی. وہ ایک سال جہاد کے لئے تشریف لے جاتے تھے. اور ایک سال حج کے لئے. اُن کا نام’’عبداﷲ‘‘ اور اُن کے والد محترم کا نام’’مبارک‘‘ تھا. یقیناً آپ حضرات نے حضرت امام عبداﷲ بن مبارک(رح) کا نام نامی بار بار سنا ہوگا. آپ ۸۱۱ھ ÷ میں پیدا ہوئے. اُس وقت ہشام بن عبدالملک کی حکومت تھی. بنو امیہ کا دور زوال پذیر تھا اور ’’بنو عباس‘‘ کی آمد آمد تھی. حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) پیدا تو اموی دور میں ہوئے مگر آپ(رح) نے عباسی دور کا عروج. یعنی ہارون الرشید کی حکومت کا زمانہ بھی پایا. آپ(رح) کا خاندان. امانت داری کی بنیاد پر وجود میں آیا. بے شک ’’امانت‘‘ بہت اونچی نعمت ہے. یہ نعمت جس انسان کو نصیب ہو جائے اُس پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل ہو جاتا ہے. حضرت عبداﷲ (رح)کے والد. جن کانام’’مبارک‘‘ تھا. ایک تاجر کے غلام تھے اور اُس کے باغ میں کام کرتے تھے. آپ کافی عرصہ اُس باغ کی دیکھ بھال کرتے رہے. پھر ایک دن اُن کا مالک باغ میں آیا اور اُس نے انہیں باغ سے میٹھے انار توڑ کر لانے کا حکم دیا. مبارک باغ سے انار توڑ کر لائے تو وہ کھٹے نکلے. مالک بہت غصہ ہوا اور تاکید کی کہ میٹھے انار توڑ کر لاؤ. وہ دوبارہ توڑ کر لائے تو وہ بھی کھٹے نکلے. اسی طرح تیسری بار بھی ہوا تو مالک کو بہت غصہ آیا. وہ کہنے لگا! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میٹھے کون سے ہیں اور کھٹے کون سے؟. مبارک نے کہا جی مجھے معلوم نہیں. آپ نے اس باغ کی رکھوالی کا حکم دیا تھا. چونکہ آپ نے اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں دی تھی اس لئے میں نے کبھی کوئی پھل نہیں چکھا. مالک نے جب تحقیق کی تو یہ بات درست نکلی. اُس نے مبارک کو آزاد کر دیا. اور اپنی بیٹی سے اُن کا نکاح کر دیا. یہ خاتون بہت دیندار اور اﷲ والی تھیں. ان کا نام’’ہند‘‘ تھا. ان دونوں کو . اﷲ تعالیٰ نے عبداﷲ بن مبارک جیسا بیٹا. اور کئی بیٹیاں عطا فرمائیں. اپنی بیٹی سے نکاح کے ساتھ ہی اُس تاجر نے مبارک کو اپنی جائیداد میں سے بھی کافی حصہ دیا. اس میں ایک باغ بھی تھا جو مبارک نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت عبداﷲ بن مبارک کو دے دیا. حضرت عبداﷲ بن مبارک جب جوان ہوئے اور وہ علما کی صحبت میں علم حاصل کرنے لگے تو اُن کو احساس ہوا کہ مجھے اپنے اس باغ میں سے اپنی بہنوں کو بھی حصّہ دینا چاہئے. وہ اپنی بہنوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا. والد محترم کو چاہئے تھا کہ یہ باغ ہم سب میں تقسیم فرماتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا. اب میں اس باغ کو والد صاحب کی وراثت قرار دے رہا ہوں. والد صاحب سے ایسا کام ہوا جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا وہ تم سب معاف کر دو اور اس باغ میں سے اپنا حصہ لے لو. اُن کی بہنیں بھی عجیب تھیں. انہوں نے کہا ہم نے والد محترم کو معاف کیا. اور اس باغ سے اپنا حصّہ وصول کر کے وہ آپ کو ہدیہ کر دیا. حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کا بیٹا پیدا ہوا تو آپ(رح) کی بہنوں نے اُس باغ میں سے اپنا اپنا حصّہ اُس بچے. یعنی اپنے بھتیجے کو ہدیہ کر دیا. چند دن بعد اُس بچے کا انتقال ہو گیا تو وہ باغ واپس حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کے حصے میں بطور وراثت آگیا. یہ تھی اُس پیارے خاندان کی امانت، خوش اخلاقی ،ایثار. اور باہمی محبت. بھائی کو بہنوں کے حق کی فکر. اور بہنیں اپنے بھائی کی خاطر ہر قربانی کو تیار. ایسے بابرکت خاندان نے اُمت مسلمہ کو ایک عظیم امام دیا. جس کا نام حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) تھا. انشا اﷲ آئندہ کسی نشست میں حضرت امام عبداﷲ بن مبارک(رح) کے کچھ حالات عرض کئے جائیں گے. اﷲ تعالیٰ ہم سب کے گھرانوں میں ایمان، تقویٰ، دیانت، امانت. اور باہمی ایثار و محبت نصیب فرمائے.
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وأَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَّربَ عِنْدَکَ وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197395 views A Simple Person, Nothing Special.. View More