اہل بیت سے محبت ( دوسرا اور آخری حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
ہم لوگ سرکار علیہ وآلیہ وسلم سے نسبت کے فیضان اور آپ علیہ وآلیہ وسلم سے جڑے آپ علیہ وآلیہ وسلم کے اہل بیت سے محبت کا ذکر خیر کررہے تھے تو دیکھئے یہ بات تو ہمیں ماننی پڑے گی کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا کو اپنے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی وجہ سے قائم کیا اور ہم نے خدا عزو جل کو دیکھا نہیں لیکن پھر بھی اس کو مانا ہے صرف سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے کہنے پر اور ہم نے آپ علیہ وآلیہ وسلم کے اہل بیت کو بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی وجہ سے مانا اہل بیت کے بارے میں سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے آپ سے بڑھ کر مجھ سے اور اپنے اہل وعیال سے بڑھ کر میری اولاد سے یعنی اہل بیت سے محبت کرے گا مومن کا تاج صرف اس کے سر ہی سجے گا اور جس نے بھی میرے اہل بیت میں سے کسی سے بھی بغض رکھا وہ اپنے آپ کو مومن کی صف سے خارج سمجھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عباسی خلیفہ جو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھا یعنی اہل بیت میں سے تو اس نے مدینہ منورہ کے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت امام مالک رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو کوڑے مارے جائیں لہذہ نہ صرف آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو کوڑے مارے گئے بلکہ آپ کے بازو بھی نکلوا دئیے اس کے بعد سیاسی طریقہ سے وہ خلیفہ آپ رضی اللّٰہ عنہ کے پاس تعزیت کے لئے آیا اور کہا کہ میں اس گورنر کو سخت سے سخت سزا دوں گا آپ اسے معاف فرما دیں اور جب اس گورنر کے سزا کےلئے لوگوں کو جمع کیا گیا تو آپ رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللّٰہ عنہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اب اتفاق یہ تھا کہ کوڑے مارنے والا بھی سادات میں سے تھا لہذہ امام مالک رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ جب بھی اس کا کوڑا لگ کر میرے جسم سے جدا ہوتا تھا تو میں اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتا کہ یا اللہ یہ اہل بیت میں سے ہے میں نے اسے معاف کیا یہ ہے ہمارے بزرگوں کا وطیرہ جو وہ اہل بیت کی محبت میں اپنایا کرتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک معروف بادشاہ گزرا ہے جسے دنیا تیمور لنگ کے نام سے بخوبی جانتی اور پہچانتی ہے حضرت امام سخاوی علیہ رحمہ نے اس کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک ظالم بادشاہ تھا اور اپنی رعایا پر ظلم و جبر کیا کرتا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی قبر پر کچھ قاری حضرات کو تلاوت کے لئے بٹھایا گیا تو ان قاریوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس پر اس بادشاہ نے بہت مظالم ڈھائے اور وہ ان مظالم کو سہنے والوں میں سے تھا جب سرکاری سطح پر بلائے گئے قاری وہاں موجود رہتے وہ بھی ان کے ساتھ پڑھتا اور جب وہ سب رخصت ہو جاتے تو وہ کہتا کہ " کہ اسے پکڑو اسے گرفتار کرو اور بیڑیوں میں جکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دو " یعنی وہ شخص اس کے لئے بددعائیں کیا کرتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت سخاوی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رات خواب میں سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ بادشاہ تیمور لنگ آپ علیہ وآلیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا آپ علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ مجھے غصہ آیا اور میں اس کی طرف لپکا کہ اور کہا کہ اے دشمن خدا اے میرے دشمن تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہے ہٹ جا یہاں سے فرماتے ہیں میں جیسے ہی آگے بڑھا مجھے سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے ہاتھ مبارک کے اشارے سے روکا میں حیران و پریشاں تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو سرکار علیہ وآلیہ وسلم نےفرمایا پیچھے ہٹ جائو اور اس کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا جب میں نے سوالیہ طورپر حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص میری اہل بیت سے میری اولاد سے بے انتہا محبت کرتا تھا آپ حضرت سخاوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کیا کہ نہ جانے میں نے اس بادشاہ کے خلاف کیا کیا کہ ڈالا اور آئندہ باز رہنے کی توفیق مانگی تو دیکھا آپ نے یہ ہے اہل بیت یعنی سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی اولاد سے محبت کا نتیجہ اور اس کا اجرو ثواب ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس وجہ سے ہی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ " جو دنیا میں میری اولاد یعنی اہل بیت سے محبت کرے گا بروز محشر اس کو اس کا صلہ میں خود عطا کروں گا " یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جو ہمارے درمیان صحیح العقیدہ سادات ہیں اصل میں یہ وہ لوگ ہیں جو سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے جسم مبارک کا جز ہیں حصہ ہیں جن کی رگوں میں سرکار علیہ وآلیہ وسلم کا خون مبارک گردش کررہا ہے یہ بات میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان کئی لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو اصل سید نہیں بلکہ غیر سید ہیں ایک بات یاد رکھئے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا جسم مبارک اس وقت مسجد نبوی کی زمین کے جس حصے سے جڑا ہوا ہے وہ حصہ اللہ تعالیٰ کے عرش سے بھی اعلی ہے تو پھر ہمارے درمیان موجود سید سادات یعنی اہل بیت کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا علماء کرام لکھتے ہیں کہ امت محمدی کے ہر فرد کو چاہئے کہ اپنا تن من دھن سب کچھ سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی اولاد یعنی اہل بیت پر نچھاور کردے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جو یہ چاہتا ہے کہ اس عارضی دنیا میں تو کیا بروز محشر بھی اس پر رحمتوں کی بارش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے اہل بیت کی غلامی اختیار کرلے اگر آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان تابعین آئمہ کرام اور بزرگان دین نے اہل بیت کی محبت کی کیسی کیسی مثالیں قائم کیں ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ موجود تھے تو حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جو اہل بیت میں سے ہیں ہاشمی گھرانے سے تعلق ہے تشریف لائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تعظیم کے ساتھ اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور اپنی جگہ خالی کرکے انہیں بیٹھنے کو کہا اور جب تک وہ بیٹھ نہ گئے آپ یوں ہی کھڑے رہے یہ ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اہل بیت سے محبت کا انداز ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اہل بیت سے محبت کا انداز یہ تھا کہ جب بھی کہیں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد ہوتی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے قدم شریف کو چومتے اور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ لیتے ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سواری پر سوار ہوکر جارہے تھے کہ انہوں نے وہاں سے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو گزرتے ہوئے دیکھا یہ دونوں اعلی مقام کے اہل صحابہ اپنی سواری سے اتر کر تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور تب تک کھڑے رہے جب تک حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزر نہ گئے اسی طرح ایک قول کے مطابق سب سے زیادہ احادیث کے راوی امام حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ آپ نے ایک سفید خوبصورت سا عمامہ اپنے سر پر سجایا ہوا ہے اور اس عمامہ سے حسنین کریمین کے جوتوں کو صاف کررہے ہیں یہ ہے ادب اور تعظیم اولاد رسول یعنی اہل بیت سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے درمیان جو بھی سید ہو سادات ہو سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے کے گھرانے کی کہیں سے بھی خاص نسبت ہو ہمیں ان کی تعظیم کرنی ہوگی اور ایک بات یاد رکھئے کہ جو فاسق ہوتا ہے یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا تو اگر کسی وجہ سے دنیاوی مجبوری کے ہاتھوں اس کا احترام کیا جائے تو عرش الٰہی ہل جاتا ہے آج کے ہمارے معاشرے میں یہ بات بڑی عام ہے نوکری کرنے والے کا باس چاہے کرپٹ ہو سودخور ہو لیکن ملازمت کرنے والا اس کی تعظیم کےلئے کھڑا ہو جاتا ہے اسی طرح کاروبار میں اچھی اور بڑی ڈیل کرنے والا چاہے کتنا ہی دونمبری کیوں نہ ہو اچھے پروفٹ کی وجہ سے ہم اس کی تعظیم کرتے ہیں اسی طرح سیاسی لیول پر یہ مناظر بہت عام دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن قربان جائیں امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی پر جو فرماتے ہیں کہ اگر ایسا فاسق شخص بھی اگر سادات میں سے ہو سید ہو تو ہمیں اس کی بھی تعظیم کرنا ہوگی پوچھا گیا کیوں تو فرمایا کہ ہمیں اس کی نسبت بھی تو دیکھنا ہوگی فرماتے ہیں کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم بڑے کریم ہیں جب چاہیں اسے ٹھیک کردیں کہ اولاد تو انہی کی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہیرا تو ہیرا ہے اگر غلطی سے کیچڑ میں گر بھی جائے تو صاف کرنے پر ویسے کا ویسا ہی ہو جاتا ہے اس کا عمل اس فعل جو بھی ہے ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے بس نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی وجہ سے ہمیں اس کی تعظیم کرنا ہوگی اگر وہ فاسق ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس پر آزمائش ہو ہمارے پاس اس کے کسی بھی عمل کے سزا کا اختیار نہیں ہے ہمیں تو نسبت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی وجہ سے اس کی تعظیم کرنا ہوگی کسی عام انسان کے کسی عمل پر ہمارے پاس اس کی سزا کا اختیار نہیں ہے تو یہ تو سادات گھرانے سے ہے اگر وہ صحیح العقیدہ سنی سید ہے تو ہمیں اس کی تعظیم کرنا ہوگی اور یہ ہم پر واجب ہے یہاں پر ایک بات اور عرض کر دوں کہ حضرت امام شعرانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی سید زادے کے ہاتھ پر ضرب لگادی وہ کہتا ہے کہ میں جب رات کو سویا تو سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا لیکن سرکار علیہ وآلیہ وسلم بہت غصہ میں تھے اور فرمایا کہ تو نے مجھے مارا وہ بولا کہ میں کانپ گیا ڈر گیا کہ میری کیا اوقات کیا جرات کہ میں ایسا کروں تو سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا تو نے میری اولاد پر ہاتھ اٹھایا گویا مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور اس کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کا وہ حصہ دکھایا جہاں میں نے اس شخص کو ضرب لگائی تھی یعنی کسی اہل بیت کو تکلیف دینا سرکار علیہ وآلیہ وسلم کو تکلیف دینا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئے اعلی حضرت عظیم المرتبت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی نے فرمایا کہ اگر کسی جگہ شاگرد سادات میں سے ہے تو استاد کو بھی اسے ڈانٹنے یا مارنے سے گریز کرنا چاہئے اسے بچنا چاہئے کہ یہ نسبت کا سوال ہے سادات سے محبت سرکار علیہ وآلیہ وسلم سے محبت ہے اور سرکار علیہ وآلیہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے لہذہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اہل بیت سے محبت ہے ہمارے آج کے معاشرے میں ایک بات بڑی عام ہوتی جارہی ہے کہ کچھ وہ لوگ جو باقائدہ طور پر سید نہیں ہیں سادات میں سے نہیں ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو سید کہتے ہوئے نظر آتے ہیں استغفر اللہ لیکن یاد رکھئے کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو میری اولاد ظاہر کرے جبکہ اس کا میری اہل بیت سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہوا تو اس پر میری لعنت ہے اور یہ معاملہ ہمارے معاشرے میں اس لئیے پھیلا کی اگر کسی شخص نے کسی اللہ کے ولی کامل کے ہاتھ پر بیعت کی اور وہ سید زادے ہیں تو مرید سمجھتا ہے کہ میں بھی سید ہوگیا معاذاللہ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ عالم دین تو بن سکتا ہے مفتی تو بن سکتا ہے حافظ قرآن تو بن سکتا ہے لیکن سید نہیں بن سکتا یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے جسے چن لیا بس چن لیا اور وہ رہتی قیامت تک حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی اولاد میں رہیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک روایت میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ ایک دفعہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دوسرے ہاتھ میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ لیا اور فرمایا کہ جس نے مجھ سے محبت کی میرے ان نواسوں سے محبت کی ان کی ماں خاتون جنت بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے محبت کی ان کے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے محبت کی تو وہ قیامت میں میرے درجہ میں میرے ساتھ جنت میں ہوگا اور بقول علماء کرام کے کہ ایسی فضیلت والی روایت کم از کم کسی اور عمل میں ہمیں کہیں بھی نہیں ملتی کہ سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میرے کسی بھی امتی نے میرے پنجتن پاک سے محبت کی تو وہ جنت میں میرے درجہ پر داخل ہوگا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اس عارضی دنیا کی زندگی کے دن گزارتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے گھرانے کے لوگ جو سادات میں سے ہیں اہل بیت اطہار میں سے ہیں اور صحیح العقیدہ سنی سید ہیں ان کی غلامی اختیار کرلیں جس کے ذریعہ ہم دنیا میں بھی پھلتے پھولتے رہیں گے اور بروز محشر بھی سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے پہلو میں ہمارا ٹھکانہ ہوگا ان شاءاللہ اہل بیت اطہار سے محبت اپنا شعار اور اپنی عادت بنا لیجئے کیا معلوم کہ ہم گناہ گاروں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ ہماری سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے گھرانے سے محبت سے ہی بن جائے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جو کچھ اپنے علم اور کاوش سے تحریر کیا اسے پڑھنے اور اس پر عمل کرکے جنت میں اپنا گھر بنانے کی توفیق عطا کرے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے سچی پکی محبت ہمیں بھی نصیب ہواللہ رب العزت کا قرب عطا ہو ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی اہل بیت اطہار سے محبت اور ان کی تعظیم کرکے ان کی غلامی نصیب فرما اور ان کے صدقہ و طفیل ہماری خطائوں کو معاف کرکے ان کو نیکیوں میں بدل دے ہمیں خاتمہ بالخیر عطا فرما اور اس عارضی دنیا میں خیروعافیت کے ساتھ اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کر آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 126 Articles with 83449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.