شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ دنیاوی و آخروی تمام کامیابیوں کا راستہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں دینِ اسلام کی صورت میں عطا فرما دیا ہے اور اسلام کے احکامات پر عمل کر کے ہی ہم دنیا اور آخرت میں آرام و سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام سے دوری کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگوں نے اسلام کو محض چند عبادات تک ہی محدود کرلیا اور باقی معاملات میں اسلامی احکامات کو یکسر فراموش کر دیا بلکہ یوں سمجھا جانے لگا کہ جیسے ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حالانکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو اور باقی معاملات کی طرح شادی جیسے اہم معاملے میں بھی اسلام کی تفصیلی تعلیمات موجود ہیں جن پر عمل کا نتیجہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے اوران سے اعراض کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ شاید ہی کوئی گھرانہ محفوظ ہو، ورنہ شادی کے کچھ ہی عرصہ میں فریقین کی طرف سے اعتراضات اور نزاع و اختلافات کا لامحدود سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر بعض اوقات علیحدگی پر ختم ہوتا ہے۔ ان ناکامیوں کی بنیادی وجہ تو اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہی ہے جو رشتے کی تلاش سے لے کر میاں بیوی کے حقوق و فرائض اور گھریلو معاملات تک ہر موقع پر جامع دستور العمل فراہم کرتی ہیں۔ البتہ یہاں میں چند ایسے اسباب مختصراً عرض کرناچاہتا ہوں جن کو آجکل اکثریت ملحوظِ خاطر نہیں رکھتی، نہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے ،الّا ماشائ اللہ:

دیندار رشتہ نہ ڈھونڈنا
ابتدا میں جو غلطی کی جاتی ہے وہ یہ کہ لوگ دیندار رشتے تلاش نہیں کرتے بلکہ اکثر تو دینداری کو ملحوظِ خاطر ہی نہیں رکھتے۔ حسن و جمال، دولت و شہرت، نوکری و کاروبار، زمین و جائیداد، تعلیم و ہنر ﴿دینی نہیں دنیاوی﴾ کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے، اور اس میں بھی معیار اتنا بلند رکھا جاتا ہے کہ تلاش کرتے کرتے عمر ہی گزر جاتی ہے۔ بالخصوص امارت کو بہت زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ کوٹھی ہو، بنگلہ ہو، کار ہو وغیرہ۔ اس کے برعکس اس بارے میں جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ لڑکا دیندار بھی ہے یا نہیں بلکہ اگر لڑکا دیندار ہو تو اس کو قابلِ ترجیح نہیں سمجھا جاتا، بالخصوص داڑھی پر تو چہرے کے تاثرات ہی بدل جاتے ہیں جیسے یہ کوئی عیب ہو۔ اور اگر رشتہ کی بات چل ہی پڑے تو طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے مثلاً داڑھی کٹوانے کا مطالبہ اور یہ کہ کہیں لڑکی پر پابندیاں تو نہیں لگائے گا، پردہ تو نہیں کروائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر کوئی رشتہ ڈھونڈتے ہوئے دینداری کا لحاظ رکھ بھی لے تو لوگ صرف چند ظاہری عبادات کو ہی دینداری سمجھ لیتے ہیں، لہٰذا سمجھتے ہیں کہ جو پانچ وقت نماز پڑھتا ہے، ہر وقت تسبیح ہاتھ میں ہوتی ہے وہ بڑا دیندار ہے۔ حالانکہ دینداری کا معیار تقویٰ ہے اور دیندار آدمی وہ ہے جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے اور اپنا ہر عمل اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے تابع اور سنّت کے موافق کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ لہٰذا اس معیار پر پرکھتے ہوئے دیندار رشتوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ دنیا داری کا بھی بقدرِ ضرورت لحاظ رکھیں لیکن دینداری کو مقدم سمجھیں۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس نکاح کا پیغام بھیجے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس شخص سے ﴿اس لڑکی کا﴾ نکاح کردو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر بڑا فتنہ اور ﴿لمبا﴾ چوڑا فساد ہوگا"﴿مشکوٰۃ﴾۔ اور اس فساد کا عملی نمونہ آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "عورت سے چار چیزیں دیکھ کر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کی حیثیت کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے، اس کی دینداری کی وجہ سے، پس اے مخاطب تو دیندار عورت کو اپنے نکاح میں لاکر کامیاب ہو جا تیرا بھلا ہو"﴿مشکوٰۃ﴾۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "مومن بندہ نے تقویٰ کی نعمت کے بعد کوئی ایسی بھلائی حاصل نہیں کی جو اس کے حق میں نیک بیوی سے بڑھ کر ہو"﴿ابن ماجہ﴾۔ اسی کو نیک شوہر پر قیاس کر لیں۔ اس حدیث سے تقویٰ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

اور عقل سے بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جو آدمی دیندار نہیں، شریعت کے احکامات پر عمل نہیں کرتا، تو جو اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ آپ کے حقوق کیا ادا کرے گا، جو اللہ اور رسول ﷺ سے وفا نہیں کرتا وہ آپ سے کیا وفا کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کی قدر نہیں کرتا وہ آپ کے احسان کی کیا قدر کرے گا۔ اس صورت میں بھی اگر کوئی دینداری کو نظر انداز کر کے پکے دنیا داروں میں رشتہ کرے تو پھر کیکر کے بیج بو کر آموں کی اُمید رکھنا بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ البتہ یہ بیوقوفی کرتے ہوئے لوگ ڈرتے بھی ہیں اسی لئے نکاح نامہ میں بڑی لمبی چوڑی شرائط لکھواتے ہیں کہ شوہر اگر دوسری شادی کرے گا اتنے لاکھ ادا کرے گا، اگر طلاق دے گا تو یہ کرے گا، اگر بیوی ناراض ہوکر میکے جائے گی تو اتنا خرچ دے گا وغیرہ۔ حالانکہ یہ بہت بڑی حماقت ہے، کہ اگر فریقین پر اعتماد نہیں تو رشتہ کیوں کر رہے ہیں اور اگر اعتماد ہے تو اس قسم کی شرائط کیوں رکھ رہے ہیں۔ کیا کبھی اس قسم کی شرائط اور مجبوریوں پر بھی گھر آباد ہوئے ہیں؟ گھر تو محبت، اعتماد و اخلاق سے بستے ہیں۔ میری بات کا یقین نہیں تو اردگرد کا مشاہدہ ہی کرلیں کبھی ایسا ہوا کہ ان شرائط نے کسی گھر کو ٹوٹنے سے بچا لیا ہو؟، کسی کو دوسری شادی سے روکا ہو؟، کسی کو طلاق دینے سے روکا ہو؟، کسی کو حق تلفی سے روکا ہو؟ کبھی نہیں۔ یہ بات تو عقل کے بھی خلاف ہے۔ بھلا کسی کو یہ غلطیاں کرتے ہوئے تمام شرائط کو یاد رکھنے یا سوچنے کا موقع ملتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہاں صرف اللہ کا خوف ہی ایک انسان کو تمام حقوق کی ادائیگی پر مجبور کر سکتا ہے جو ایک دیندار آدمی کے دل میں ہوتا ہے۔

یہ بات جہاں اللہ تعالیٰ پر عدم توکل پر دلالت کرتی ہے وہاں ابتدا ہی سے شوہر اور اُس کے گھر والوں کے دل میں بغض اور شبہات کا بیج بو دیتی ہے۔ شیطان اس کی بھرپور آبیاری کرتا ہے۔ شوہر کے دل میں ابتدا ہی سے یہ رنجش پیدا ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں نے مجھ پر اعتماد نہیں کیا اور ان شرائط سے مجھے باندھنا چاہا۔ اور لڑکی والوں کا اس سے مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان شرائط کی وجہ سے شوہر مجبور اور بے بس رہے گا، چنانچہ بعد میں لڑکی اور اُس کے گھر والوں کا روّیہ معتدل نہیں رہتا اور وہ بعض اوقات زیادتی بھی کر جاتے ہیں۔ لیکن شوہر بھی ایک حد تک اور بعض اوقات تو بالکل بھی برداشت نہیں کرتا اور اُس کے دل کی رنجش اور کڑھن اُسے بغاوت پر مجبور کر دیتی ہے اور باغی کسی شرط کی پرواہ نہیں کرتا۔ بات بڑھنے پر معاملات گھروں سے نکل کر عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں جھوٹ سچ، جائز ناجائز کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی۔ پھر کچھ تو ساری زندگی یہ ذلّت برداشت کرتے رہتے ہیں، کبھی عاملوں کے چکر لگا رہے ہیں تو کبھی وظائف پوچھ رہے ہیں۔ کبھی کہا کہ فلاں نے تعویذ کر دیئے ہیں، فلاں نے کالا جادو کر دیا ہے اور اگر آجکل کے کسی جاہل پیر یا عامل نے اِس کی تصدیق کر کے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تو بس اب سارا نزلہ اُس پر گر جاتا ہے جس پر تعویذوں کا شبہ تھا۔ اس طرح فساد در فساد اور دُشمنی کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ البتہ بعض لوگوں کے دم خم اور ہمتیں کچھ عرصہ دھکے کھانے کے بعد ٹوٹ جاتی ہیں تو تھک ہار کر "کچھ لے اور کچھ دے" کی بنیاد پر معاملہ ختم ہوتا ہے۔ جب گھر بار، دولت عزت لُٹا کر عمر بھر کی پریشانیاں اور ذلتیں سمیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں ہیں تو پھر کہتے ہیں "قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے، آدمی کیا کر سکتا ہے، جو اللہ کو منظور تھا وہی ہوا"۔ لیکن افسوس کہ اس جملے سے بھی رضابالقضا مقصود نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ خود ساری غلطیوں سے برّی الذمہ ہو کر سارا معاملہ تقدیر پر ڈال دیا جائے اور اُس شرمندگی سے بھی بچ جائیں جو لوگوں کے سامنے ہوتی اور دوسرا اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ ورنہ اگر رضا بالقضا ہی مقصود ہوتی تو پہلے توکل کیوں نہیں کیا اور ہر جائز ناجائز حربہ کیوں آزمایا؟ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اب بھی اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے، شرمندگی کا اظہار کر کے سچے دل سے توبہ کرتے اور آئندہ شریعت پر مکمل عمل کرنے کا عزم اور عہد کرتے کیونکہ یہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف فرما دیتا ہے"﴿شوریٰ۰۳﴾۔ لیکن ہمارا حال تو آجکل اُس عورت کی طرح ہے جس نے کہا کہ "جب میں بہو بن کر آئی تو ساس اچھی نہ ملی اور جب ساس بنی تو بہو اچھی نہ ملی" ۔ یعنی اس کو یہ خیال کبھی نہ آیا کہ ذرا اپنے اوپر ہی غور کر لوں کہ کہیں مجھ میں ہی تو عیب نہیں۔ لیکن اپنے عیوب دیکھنے کے لئے تو کوئی تیار ہی نہیں۔

خلافِ سنّت اور غیر شرعی رسومات
شادی کے موقع پر لوگ فریقین کو مبارکباد دیتے ہیں لیکن اس مبارکباد کا مطلب و مفہوم نہیں سمجھتے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام میں برکت عطا فرمائے، لیکن عملی طور پر تو ہم اس کے خلاف کرتے ہیں۔ شادی کی ابتدا ہی میں اس میں بے برکتی داخل کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہم خلافِ سنّت اور غیر شرعی رسومات سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں بلکہ اس میں بہت سے دنیاوی مفاسد بھی پائے جاتے ہیں اور یہی فضول رسومات شادی میں بے برکتی کا بڑا سبب ہیں۔ ذرا خود ہی سوچیں کہ اگر ہم شادی کے موقع پر اسلام کا صاف ستھرا اور سہل ترین طریقہ چھوڑ کر ہندوانہ طور طریقے اپنائیں گے تو اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟ یہ بات تو ہر کسی کو یاد ہوتی ہے کہ شادی کرنا سنتِ رسول ﷺ ہے لیکن شادی کے موقع پر یا ازدواجی زندگی میں کہیں بھی سنّت کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ ہندوؤں کے ساتھ رہ کر مسلمانوں نے اُن کے معاشرے کی بہت سی چیزیں اپنا لیں جن میں شادی بیاہ کی بہت سی جاہلانہ رسومات بھی ہیں جن کا اسقدر اہتمام کیا جاتا ہے کہ جیسے ان کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن شادی بیاہ میں کھانا کھلانے پر پابندی لگاتے ہوئے اب تو سپریم کورٹ نے بھی یہ تسلیم کر لیا کہ "مایوں، مہندی، بارات، اور بڑا جہیز دینے کی رسوم ہندوانہ ہیں"۔ ان رسومات کے دینی اور دنیاوی نقصانات بیان کرنے لگیں تو دفتر کے دفتر کھل جائیں ﴿ان رسوم کی تفصیل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اپنی کتاب اصلاح الرسوم اور بہشتی زیور حصہ ششم میں تحریر فرمائی ہے﴾ لیکن پھر بھی لوگوں نے خود کو ان رسوم میں اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ان کے تقاضے پورے کرنے کے انتظار میں بہت سی لڑکیاں اور لڑکے اپنی جوانی ضائع کررہے ہیں اور بوڑھے ہو رہے ہیں۔ لہٰذا آج غریب تو کیا متوسط گھرانے کو بھی شادی کرنے کے لئے کئی سال کی تیاری درکار ہے، لیکن یہ تقاضے پھر بھی پورے نہیں ہوپاتے۔ جو لوگ انہیں پورا کرنے کے متحمل ہیں وہ تو خیر اپنی شہرت کی خاطر یہ خرافات اپناتے ہیں اور دوسرا غریب اور متوسط طبقہ محض لوگوں کی باتوں کے ڈر سے یہ سب کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یعنی مقصود اس سے نمود و نمائش کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیونکہ آخر میں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ"لوگ کیا کہیں گے؟" ،"خاندان میں ناک کٹ جائے گی"۔ حالانکہ یہ بیوقوفی ہے کیونکہ لوگ تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہیں گے۔ ان رسموں کی ادائیگی میں سر توڑ کوشش کے باوجود بھی، شکوے شکائتیں اور طعن و تشنیع کا سامان کھڑا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں دلوں میں کدورتیں اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں جو اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ پھر یہ مصارف حلال آمدنی سے تو پورے ہو نہیں سکتے لہٰذا ان اخراجات کے لئے حرام ذرائع کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ سودی قرضوں کا بوجھ اُٹھا کر عمر بھر پریشانی الگ۔ چنانچہ پہلے تو "ناک"بچانے کے لئے جیسے تیسے ان رسوم کو پورا کردیتے ہیں لیکن بعد میں اس کے نتائج معاشی بدحالی کے طور پر سامنے آتے ہیں جو گھریلو ناچاقی کا باعث بھی بنتے ہیں۔

حالانکہ شریعت نے نکاح کو بہت ہی زیادہ آسان بنایا کیونکہ یہ انسان کی فطری خواہش پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ اگر مرد و عورت عاقل و بالغ ہوں اور دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں تو بس نکاح ہو گیا۔ اس کے علاوہ نکاح میں اور کوئی شرط نہیں، نہ منگنی، نہ بارات، نہ مہندی، نہ مایوں، نہ لوگوں کا اجتماع وغیرہ کچھ بھی شرط نہیں۔ بلکہ جس طرز پر یہ رسوم ادا کی جاتی ہیں اس سے اجتناب لازم ہے۔ ہاں! دلہن کے اکرام کے لئے مہر ضروری ہے، لیکن مہرکا مقصد بھی آجکل نمود و نمائش ہے، چنانچہ لوگ محض اپنی شان و شوکت کے لئے غیر معمولی مہر لکھوا لیتے ہیں لیکن دینے کا ارادہ نہیں ہوتا اور بعد میں بیوی سے معاف کروا لیتے ہیں۔ اس طرح مہر معاف نہیں ہوتا اور اس کا گناہ شوہر کے سر پر رہتا ہے اور یہ شریعت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑی بے غیرتی بھی ہے۔ خطبہ نکاح بھی فرض، واجب یا لازمی نہیں البتہ سنّت ضرور ہے اور ولیمہ بھی حسبِ استطاعت سنّت ہے لیکن اس کے لئے بھی قرض لینا ضروری نہیں ﴿جیسا کہ آجکل نمود و نمائش کے لئے کیا جاتا ہے﴾ بلکہ شرعاً نا پسندیدہ ہے اور کوئی شخص اپنی مالی استطاعت کے مطابق جتنے مختصر پیمانے پر ولیمہ کر سکتا ہے کرلے اور نہ کرسکے تب بھی نکاح میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں زیر باری کم سے کم ہو" ﴿مشکوٰۃ﴾۔ یعنی جس تکلّفات کم سے کم ہوں، انسان پر نہ مالی طور پر بار ہو اور نہ بیجا مشقت و محنت کے کسی بوجھ میں مبتلا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی شادیاں اور اپنی چاروں صاحبزادیوں کی شادیاں بھی نہایت سادگی سے کر کے اس کا عملی نمونہ بھی پیش فرما دیا۔ اس لئے ہر طبقہ کے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی شادیوں میں حتی الامکان سادگی اختیار کریں اور ہمت کر کے ان رسموں کو توڑیں جنہوں نے شادی کو عذاب بنا رکھا ہے۔ ہر آدمی اپنے طور پر ہمت کرے تو یہ سلسلہ آگے چل سکتا ہے۔

گناہوں کا وبال
نکاح اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور رسول کریم ﷺ کی عظیم سنّت ہے اور اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس موقع پر شکر ادا کیا جاتا اور اللہ اور رسول ﷺ کی رضا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا لیکن اس کے برعکس اس موقع پر دل کھول کر گناہوں کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ وہ محفل جہاں روٹھے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کو منانے کا اہتمام تو ہوتا ہے، ملازم نوکروں تک کو خوش کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ جیسے آج کے دن تو ہم پر کوئی پابندی ہے ہی نہیں اور اس موقع پر ہمیں سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ان گناہوں کے لئے بہت پہلے سے خصوصی تیاری کی جاتی ہے۔ مثلاً گانا بجانا، لڑکے لڑکیوں کا ناچنا نچوانا، تصاویر اور فلمیں بنانا، بے پردگی، مردوں اور عورتوں کا بے حجابانہ اختلاط جس میں نت نئے فیشنوں کی صورت میں بے حیائی کے نمونے نظر آتے ہیں، ریاکاری، اسراف اور نہ جانے کون کون سی خرافات اور گناہوں سے بھری ہوتی ہیں یہ تقریبات۔ خطبہ نکاح میں جن تین آیات کو پڑھنے کا حکم ہے اُن میں نکاح کا ذکر نہیں لیکن پھر بھی ان آیات کا انتخاب کسی خاص وجہ سے فرمایا گیا۔ ان تینوں آیتوں میں جو مشترک حکم دیا گیا ہے وہ تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا ہے۔ یعنی نکاح کے موقع پر اور اس کے بعد بھی خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک دوسرے کے حقوق کی صحیح ادائیگی کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کی خصوصی تاکید کی جارہی ہے۔ آجکل نکاح کے دوران خطبہ رسمی طور پر پڑھ تو لیتے ہیں لیکن عین اسی وقت ان احکام کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ شادی کی تقریبات میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور کھلی بغاوتوں کے جو نمونے دیکھنے میں آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اس شادی میں برکت کا باعث ہوگا یا وبال کا سبب ؟ جس کام کی ابتدا ہی اللہ کے غضب سے ہو اُس میں برکت اور کامیابی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اس کا وبال اور عذاب شادی کی ناکامی اور لڑائی جھگڑوں کی صورت میں بہت جلد سامنے آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "جو شخص میری اس نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی﴿یہ تو ہے دنیا کا عذاب﴾ اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا کر کے اُٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب! آپ نے مجھ کو اندھا کر کے کیوں اُٹھایا؟ میں تو آنکھوں والا تھا، ارشاد ہوگا کہ ایسے ہی تیرے پاس ہمارے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کا کچھ خیال نہ کیا اور ایسے ہی آج تیرا کچھ خیال نہ کیا جائے گا"﴿ طہٰ ۴۲۱-۶۲۱﴾۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک دو دن کی خوشی ہے پوری کرنے دو ایسا موقع بار بار نہیں آتا لیکن یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ چند لمحوں کی نفسانی خوشی کی خاطر پوری ازدواجی زندگی کا آرام و سکون داؤ پر لگا دیا جائے۔ شریعت نے خوشی منانے سے منع نہیں کیا لیکن اعتدال اور جائز طریقہ سے۔

ٹی وی اور فلمیں
شاید کوئی مجھ سے اتفاق نہ کرے لیکن شادیوں کی ناکامی اور ازدواجی اختلافات میں ٹی وی، فلموں اور فضول افسانوں اور ناولوں پر مبنی رسالوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹی وی فلمیں وغیرہ انسان کی کردار کشی کے ذرائع ہیں، یہ ذہن کو حقیقت سے دور کر کے اس کی ڈرامائی تعمیر کرتے ہیں۔ یہ زہر بچپن سے جوانی تک قطرہ قطرہ کر کے انسان میں سرایت کرتا رہتا ہے جس کا اثر عملی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے اور صرف ازدواجی زندگی میں نہیں بلکہ ہر قسم کے معاملات میں اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں اور ٹی وی فلموں وغیرہ میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس کو سچ سمجھ کر خود پر آئیڈیلزم کا بھوت سوار کر لیتے ہیں، کسی کو ڈاکٹر چاہیے، کسی کو انجینئر، کسی کو اداکار تو کسی کو گلوکار، کسی کو دولتمند بزنس مین۔ چنانچہ جب شادی کے معاملے میں بھی اپنے ذہن میں ایک معیار مقرر کر لیا تو اب اپنے مطلب کا رشتہ ڈھونڈتے کافی عمر گزر جاتی ہے اور پھر مناسب رشتے ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکے لڑکیاں جو معاملات ٹی وی فلموں وغیرہ میں دیکھتے ہیں اس کے مطابق ہی ایک دوسرے سے ڈرامائی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب جانبین ایک دوسرے کی توقعات اور معیار پر پورے نہیں اُترتے تو پھر وہی رجنشیں اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ بالخصوص لڑکیوں کے ذہن اس کے اثرات زیادہ قبول کرتے ہیں، وہ حقیقت کو نظر انداز کر کے فلموں اور ڈراموں سے متاثر ہو کر اپنے ذہن میں شوہر، ساس، سسر وغیرہ کے بارے میں ایک تصوّر اور خاکہ بنا لیتی ہیں لیکن حقیقت جب اس کے برعکس نکلتی ہے تو اس کو قبول کرنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ خواب جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جب ٹوٹتے ہیں تو انکے ساتھ بعض اوقات رشتے ناتے اور گھر بار بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔

والدین کی تربیت
شادیوں کی ناکامی میں والدین کی غلط تربیت کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔ وہ اپنی اولاد کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کی فکر تو کرتے ہیں لیکن ایک اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کی فکر نہیں کرتے لہٰذا ایسی اولاد اچھی بیوی یا اچھا شوہر بھی ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض اوقات تو والدین محض اپنی ضد، انا یا ذاتی مفاد کی خاطر خود اپنی اولاد کا گھر اُجاڑنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، اور بعض اوقات کم عقلی اور دین سے دوری کی بنا پر غلط فیصلوں اور غلط معاملات سے اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کا گھر برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اگر والدین خود بھی شریعت کے پابند ہوں اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں، انہیں بھی دیندار اور شریعت کا پابند بنائیں تو وہ ازدواجی زندگی سمیت تمام معاملات میں ایک کامیاب انسان بنیں گے، کیونکہ کامیابی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا سے مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ﴿آمین﴾۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197385 views A Simple Person, Nothing Special.. View More