یہودی اور عیسائی فقہ سے اسلامی فقہ کا موازنہ

جب بھی اسلامی تعلیم کو دوسرے ادیان و مذاہب کی تعلیم کے مقابل میں دیکھا جاتا ہے تو اسلام کا حسن اورکمال اس تقابل کی صورت میں مزید نکھر کر سامنے آتا ہے ۔قرآن کریم نہ صرف ایسے تقابل کا روادار ہے بلکہ خود علمبردار بھی ہے۔ اور بہت سے مواقع پر اس کا ذکر ملتا ہےجیسا کہ ایک جگہ ارشاد باری ہے:
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ
ترجمہ: تُو کہہ دے کہ اگر جِنّ و انس سب اکٹھے ہو جائىں کہ اس قرآن کى مثل لے آئىں تو وہ اس کى مثل نہىں لاسکىں گے۔

جب ہم اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد حجت،دلیل اور برہان پر ہے اور یہ اپنی تعلیمات کی حکمتیں بھی بیان کرتا اور آسانیاں پیدا کرتا ہے نیز یہ فطرت سے ہم آہنگ اور سچ کا علمبردار ہے تو یہ بھی ہم پر لازم ہے کہ ہم دیگر مذاہب سے اس کا موازنہ اور تقابل کریں تاکہ فطری طور پر حق کے متلاشی کے لیے راہ ہموار ہو سکے لہذا یہودی اور عیسائی فقہی تعلیمات کا اسلامی تعلیمات سے موازنہ بیان کرنا مقصود ہے۔

مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ قریباً تمام مذاہب میں کسی نہ کسی حد تک ایسی تعلیمات کا سراغ ضرورملتا ہے جو اس مذہب کے پیروکاروں کو زندگی کے مختلف پہلو سنوارنے میں مدد دیتی ہیں۔یہ تعلیمات ان کے تہذیب و تمدن کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انہی تعلیمات کو اسلامی اصطلاح میں فقہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ان فقہی تعلیمات میں انسان کو اپنے خالق تک رسائی حاصل کرنے کے طریق سمجھائے جاتے ہیں ،معاشی اور معاشرتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ امن کے قیام کے لیے حدود و تعزیرا ت اور عدالتی نظام کے اصول بھی وضع کیے جاتے ہیں ،جنگ و جدال اور بین الاقوامی تعلقات سے متعلق قوانین بھی شامل ہوتے ہیں ۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق تعلیمات کا مجموعہ موجود ہو تا ہے۔

اسلام دوسرے مذاہب کے مقابل پر زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ایک جامع لائحہ عمل پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ احکامات و تعلیمات کی حکمتیں بھی بیان کرتا ہے جو عیسائی اور یہودی مذہب کے مقابل پر اسلام کی برتری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اسلام کی تعلیمات آج کل کےموجودہ عیسائی مذہب کی مانند نہیں ہیں جو صرف لوگوں کی اخروی سعادت کی جھوٹی تصویر تو دکھاتا ہے مگر ان کی دنیاوی زندگی کے بارے میں خاموش ہے اور نجات کے لیے اعمال کو ضروری خیال نہیں کرتا ،نہ ہی یہودیوں کے موجودہ دین کی مانند ہیں جو صرف ایک ملت کی تعلیم و تر بیت کو مد نظر رکھتاہے ۔اسلام کی تعلیمات صرف اخلا ق واعمال سے مربوط چند موضوعات تک محدود نہیں ہیں ،بلکہ اسلامی تعلیم میں قیامت تک کے لیے ہرزمان و مکان میں پیش آنے والے حالات کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔

یہودی مذہب کی کتاب مقدس سےفقہی تعلیمات تو ضرور ملتی ہیں تاہم ان تعلیمات کو کسی اعتبار سے مکمل نہیں کہا جاسکتا اگر ایک پہلو کے متعلق واضح تعلیم ملتی ہے تو دوسرے پہلو کے متعلق کچھ بھی وضاحت نہیں ۔لہٰذا یہودی شریعت میں سے انسانی زندگی سے متعلق مکمل فقہ مرتب کرنا بہر حال ممکن نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد ربّیوں نے بہت سے احکامات وضع کیے نیز بہت سے احکامات میں تبدیلیاں بھی ربّیوں کی کتابوں میں ملتی ہیں کیونکہ ان کے مطابق وہ احکام زمانہ کے ساتھ ساتھ قابل عمل نہ رہے ۔ اس کے با لمقابل اسلامی شریعت قیامت تک کے لیے قابل عمل ہے ،ہاں ان تعلیمات میں ایسی لچک ضرور رکھی گئی ہے جس وجہ سے یہ تعلیمات حالات و زمانہ کی رعایت کے اعتبار سے مختلف شکلوں میں ڈھل جاتی ہیں۔

اس طرح اگر عیسائی مذہب میں فقہی تعلیمات کو تلاش کیا جائے تو کوئی خاص وضاحت کے ساتھ یہ تعلیمات نہیں ملتیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت دراصل کوئی الگ مذہب نہیں ہے اور حضرت مسیح ؑ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ تو پوری شدت اور پابندی کے ساتھ موسوی شریعت پر عمل کرتے تھے اور یہی تعلیم انہوں نے اپنے شاگردوں کو بھی دی اور شریعت موسوی کے احکام پر عمل کرنے کو نجات کے لیے لازمی قرار دیا مگر بعد میں پولوس کی تعلیم کے نتیجہ میں بتدریج عیسائیوں نے موسوی شریعت پر عمل چھوڑ دیا۔پولوس نے شریعت کو لعنت قرار دیا ۔اس کے بعد چرچ نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ نجات کے لیے شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں صرف اس بات کو ماننے کی ضرورت ہے کہ یسوع نے ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر دکھ اٹھائے اور صلیب پر موت قبول کی ۔اگر اناجیل اربعہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔حضرت مسیح ؑ کا بیان انجیل متی میں یوں درج ہے:
’’یہ نہ سمجھوکہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں۔کیونکہ میں تم سے سَچ کہتا ہُوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پُورا نہ ہو جائے۔پَس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حُکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمِیوں کو سِکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو اُن پر عمل کرے گا اور اُن کی تعلِیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔کِیُونکہ میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگر تُمہاری راستبازی فقِیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تُم آسمان کی بادشاہی میں ہرگِز داخِل نہ ہوگے۔‘‘ متی5:17-20

اصل بات یہی ہے کہ چونکہ مسیح ؑ موسوی شریعت کے تابع تھے اس لیے انہوں نے نئے تشریعی احکامات بیان کرنے کی ٖضرورت محسوس نہیں کی اور بارہا اسی بات پر زور دیتے رہے کہ تورات کے احکامات پر عمل کرو۔ اسی سلسلہ میں متی کی کتاب میں مسیح ؑ کا ایک شخص کو موسوی احکام پر عمل کرنے کی تاکید کرنے کا ذکر یوں ملتا ہے:
’’اور دیکھو ایک شَخص نے پاس آ کر اُس سے کہا اَے اُستاد میں کونسی نیکی کرُوں تاکہ ہمیشہ کی زِندگی پاؤں؟اُس نے اُس سے کہا کہ تُو مُجھ سے نیکی کی بابت کِیُوں پُوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکِن اگر تُو زِندگی میں داخِل ہونا چاہتا ہے تو حُکموں پر عمل کر۔اُس نے اُس سے کہا کون سے حُکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خُون نہ کر۔ زِنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسِی سے اپنی مانِند محبّت رکھ۔‘‘ متی19:16-21

موسیو رینان اپنی کتاب حیات مسیح میں لکھتا ہے:
’’مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں عملی اخلاقیات یا شرعی قوانین کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔صرف ایک مرتبہ شادی کے بارے میں آپ نے حتمی طور پر کچھ فرمایا اور طلا ق کی ممانعت کی ۔‘‘

اسی طرح معروف عیسائی عالم جوڈ لکھتا ہے :
’’سیاسی اور اقتصادی معاملات کے متعلق (حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی)تعلیم افسوس ناک حد تک مبہم ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسیحی علماء سرمایہ داری ،استعماریت ،غلامی ،جنگ ،قید و بند،دشمنوں کو زندہ جلا نا اور تکالیف دینا غرض کہ جس چیز کو چاہیں بلا دقت مسیح کی تعلیم ثابت کر سکتے ہیں۔‘‘

اس کے برعکس قرآن کریم ہر پہلو سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے ،پھر احادیث نور علی نور ہیں جو کہ قرآن کریم کی تشریح بیان کرتی ہیں ۔اسلامی فقہ پر لکھی جانے والی تمام کتب قرآن و احایث کی روشنی میں ہی لکھی گئی ہیں جب کہ یہودی اور عیسائی فقہ کی کتب ویسے ہی نایا ب ہیں اور جو ملتی ہیں وہ بھی ربیوں کی باتوں اور بعد میں آنے والے علماء کے باہم اختلافات کا ایک ادھورا خاکہ پیش کرتی ہیں۔

قانون دانوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور 1938ء میں لاہائی میں ہونے والی تقابلی قانون کی بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء نے اسلامی شریعت کو عمومی قانون کا ایک ماخذ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زندہ ،لچکدار اور بذات خود قائم مستقل قانون ہے جو کسی اور قانون سے ماخوذ نہیں ۔

خدا نے یہ قانون کی نعمت تو ہمیں قرآن و حدیث کی شکل میں دے دی مگر ساتھ ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے اس پر عمل کی شرط بھی عائد کی پس آج اس قرآنی قانون پر عمل کی ضرورت ہے تا ہم دنیا کو ظلمات کی تاریکی سے روشنیوں کے ماحول میں لاسکیں۔
 
Rohan Ahmed
About the Author: Rohan Ahmed Read More Articles by Rohan Ahmed: 2 Articles with 2255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.