نماز کی حقیقت

اسلامی زندگی کا ذریعہ: دین اسلام پر ایمان لانے کے بعد دوسرا درجہ نماز کا ہے۔ اس ترتیب کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی اسلام کی بیعت کرنے والوں سے دوسرا عہد نماز کا لیتے تھے، چونکہ ایمان لانے کے بعد اسلامی زندگی گزارنا ضروری ہوتا ہے جبکہ نماز ایمان اور اسلامی زندگی کے درمیان ایسا واسطہ ہے جس طرح درخت کی جڑ اور شاخوں کے درمیان تنا۔ اسلامی زندگی ایمان اور اتباع شریعت کا نام ہے اور اتباع شریعت کیلئے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں۔

(۱)ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا: چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔

(۲)اللہ کی محبت وخشیت: چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔ نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے اور ان جذبات پر عمل کے لیے ابھارتی ہے جو کہ اتباع شریعت کا اہم جز ہے

(۳) اتباع شریعت کی دعا:سورة فاتحہ اسی دعا پر مشتمل ہے۔

(۴)ساز گار ماحول: باجماعت نماز کا نظام اتباع شریعت کا ماحول ساز گار بناتا ہے۔

خلاصہ کلام کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے۔

احکام شریعت کو جامع: نماز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام احکام شریعت(اوامرونواہی)کو جمع کرتی ہے۔
ثناء میں شہادت ِ توحید، فاتحہ میں استعانت و عبادت کا صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اقرار، قبلہ رو کھڑا ہونا حج کی یادگار، کھانے پینے سے بچنا روزہ کی یاد گار، کاروبار وغیرہ چھوڑ دینا مالی قربانی(زکوٰة) کی یادگار، ایک امام کے پیچھے اور صف بستہ کھڑے ہونا، اسلامی اخوت اور خلافت کی یادگار، دورانِ نماز صرف ذکر و تلاوت کی بدولت تمام محرمات و مکروہات سے حفاظت، خلاصہ قرآن(فاتحہ) کی تلاوت سے قرآن پر ایمان کی تجدید، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور تمام مسلمانوں کے لیے دعائےِ خیر۔

نماز کا مقام قرآن و حدیث کی روشنی میں:
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاﺅ(روم)گویا نماز نہ پڑھنا مشرکین سے جڑنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جھکو(یعنی نماز پڑھو)تو وہ نہیں جھکتے اس روز(قیامت) ان کے مکذبین کے لیے بڑی خرابی ہوگی۔ (المرسلات)گویا تارک صلوٰة مومنین کے زمرے میں نہیں اس لئے قیامت کے دن جب لوگوں سے سجدے کا مطالبہ ہوگا تو بے نمازی سجدے پر قادر نہیں ہوں گے بلکہ ان کی کمریں تختوں کی بن جائیں گی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بندے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے (مسلم ،مشکوٰة) یعنی ترک نماز سے زندگی کافرانہ ہو جاتی ہے ارشاد نبوی ہے کہ” خبردار کبھی دانستہ نماز نہ چھوڑو کیونکہ جس نے قصداً نماز ترک کی وہ ملت سے نکل گیا“۔(طبرانی)

حضرت ابوہریرہ (رض) حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی روایت نقل فرماتے ہیں کہ اسلام میں اس کا کچھ حصہ نہیں جو نماز نہ پڑھتا ہو۔(بزار)

ارشاد نبوی ہے کہ نماز کے بغیر دین نہیں، دین میں نماز کا درجہ وہی ہے جو جسم انسانی میں سر کا ہے۔(طبرانی) یعنی جس طرح سر کے بغیر انسان بے جان لاش ہے اسی طرح نماز کے بغیر دین بھی بے جان ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کے نام فرمان لکھا: تمہارے تمام کاموں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ مہتم بالشان کام نماز ہے جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے پورے دین کی حفاظت کر لی اور جس نے نماز کو ضائع کردیا تو وہ باقی دین کو زیادہ برباد کرے گا۔(موطاامام مالک)گویا نماز ہی پوری زندگی جانچنے کے لیے معیار اور ترازو ہے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن بھی کامیابی کا ترازو نماز ہوگی جس کی نماز ٹھیک نکلی تو کامیاب وگرنہ نامراد رہے گا۔ جو شخص نماز اہتمام سے ادا نہیں کرتا تو فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اس کا حشر قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا (معاذاللہ)اور قیامت کے دن رسوا ہوگا۔ جو شخص اذان کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے اس کا فعل حدیث میں ظلم، کفر اور نفاق قرار دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عام رائے یہ تھی کہ اہل ایمان، نماز کے سوا کسی اور چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔

قرآن مجید نے فلاح و نجات کا ذریعہ بھی ایمان کے بعد نماز کو قرار دیا۔ اس وجہ سے کہ نماز کو پوری اسلامی زندگی لازم ہے جو درست اور کامل نماز ادا کرے گا پوری اسلامی زندگی کا پابند ہو جائیگا اور منکرات سے بچے گا توبہ و استغفار کی توفیق سے مالا مال ہوگا جس کی وجہ سے اس کے گناہ دھل جائیں گے، احادیث میں نماز کو تمام گناہوں کے دھل جانے کا جو ذریعہ بتایا گیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ نماز کے ذریعے گناہوں کو مٹانے والی چیز یعنی استغفار کی توفیق ملتی ہے جیسا کہ فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے بلاشبہ مومن جب خالص اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان (خزاں رسیدہ)پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔(مشکوٰة)

ظہور اسلام سے پہلے دیگر انبیاء علیہم السلام خصوصاً حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا نماز سے خصوصی شغف قرآن نے بیان فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ ترک نماز کی وجہ سے گزشتہ اقوام میں خرابی اور فساد پیدا ہوا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت سے آخری وصیت یہی فرمائی :دیکھو!نماز کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔

نماز کی حقیقت اور روح:نماز تین عناصر سے مرکب ہے (۱)اللہ تعالیٰ عظمت اور بڑائی کی فکر اور استحضار(۲)ایسی دعائیں اور اذکار جو بندہ کی توجہ الی اللہ،بندگی اور عاجزی پر دلالت کرتے ہیں(۳)ایسے افعال جن سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہوتی ہے۔ قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ....اور نماز کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و جلال کا تصور اور گہرا دھیان حاصل کرنا اس کے سامنے عاجزی، محبت اور توجہ آمیز تعظیم کے ساتھ ....بس۔ یہ تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اﷲ علیہ نے حجة اللہ البالغة میں بیان فرمائی ہے اسی کو احادیث میں مناجاة یعنی اللہ کے ساتھ سرگوشی سے تعبیر کیا گیا ہے جس نماز میں اس درجہ کی خشوع اور عاجزی ہو وہی نماز جاندار اور کامل ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ سفیان ثوری (رح) نے اس کے بغیر نماز کو فاسد اور حسن بصری (رح) نے اندیشہ عذاب قرار دیا ہے اور ابن عربی (رح) نے خشوع سے خالی نمازیں پڑھنے والوں کی اصلاح کے لیے پوری نظم لکھی ہے جو تنبیہ کے ساتھ بتلاتی ہے کہ بلاخشوع نماز پڑھنے والا مستحق سزا ہے الغرض بلا خشوع نماز حد درجہ ناقص ہوتی ہے ۔ قرآن میں جو اقامت صلوٰة کا بار بار حکم اس اقامت کا معنی احادیث کی روشنی میں یہی ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ تلاوت اور ارکان کا حق ادا کرکے نماز پڑھی جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی قدر وقیمت ہے ۔

نماز میں خشوع پیدا کرنے کا طریقہ اور اس کی اہمیت:توجہ سے اذان کا جواب دینا اور معانی کا استحضار، اذان کے بعد تمام کام چھوڑ کر آداب کے ساتھ مسجد جانا، سنت کے موافق وضو کرنا اور فضائل وضو کا استحضار، باطنی نجاست سے پاکی کی ضرورت یاد کرنا اور اس کے لیے توبہ واستغفار، نیت باندھتے وقت اللہ کے حضور پیشی یاد کرنا، گناہوں کے انجام کا خوف اور فضائل نماز کا استحضار، جسم کو کعبہ اور دل کو رب کعبہ کی طرف متوجہ کرنا، تمام اذکار نماز کے معانی کی طرف متوجہ رہنا اور ان کی کیفیات میں ڈوب جانا، سورہ فاتحہ کی طرف خصوصی توجہ اور ہر آیت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب کا تصور کرنا، ارکان کو تعدیل سے ادا کرنا اور ان کی کیفیات میں ڈوب جانا، التحیات میں محسن اعظم (رح) پر محبت اور توجہ سے درود پڑھنا، نماز مکمل کرنے کے بعد اسے ناقص سمجھ کر استغفار کا اہتمام کرنا۔ خلاصہ کلام یہ کہ نماز کی تیاری سے لیکر سلام پھیرنے تک پوری توجہ اور عاجزی کے ساتھ نماز کا دھیان رکھنا۔ افعال میں بھی اور اذکار میں بھی۔ یہی ظاہری و باطنی خشوع ہے اس پر نماز کی مقبولیت اور محبوبیت کا دارومدار ہے اور یہی چیز آدمی کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہے اور اس کی خاص رحمتوں اور نعمتوں کا مستحق بناتی ہے خشوع و خضوع کی اہمیت نماز میں ایسی ہے جسے بدن انسانی میں روح ....پھر ارکان نماز کو بدن کے اعضاء رئیسہ کا مرتبہ حاصل ہے کہ ان میں ایک بھی نہ ہوتو آدمی مر جاتا ہے جبکہ واجبات نماز بمنزلہ ہاتھ پاﺅں کے ہیں کہ ان میں ایک کا ماﺅف ہونا بڑے نقصان کا باعث ہے اور سنن و مستحبات، کمال حسن کے اسباب کی مانند ہیں جن سے شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ کتب فقہ میں ذکر نہ ہونے کے باعث خشوع و خضوع کو تکمین درجے میں رکھنا غلط فہمی ہے، ان کتب کا تو موضوع ہی ظاہری پہلو ہے جبکہ خشوع روح کی طرح باطنی پہلو ہے اور یہ ظاہری سے زیادہ اہم ہے جس پر کئی احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں اس کیفیت خشوع کی اصلاح وتقویت کے لیے عقیدت واخلاص کے ساتھ اہل اللہ کی صحبت ضروری ہے محض ورق گردانی کافی نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی تمام روحانی کمالات صحبت سے حاصل ہوئی تھیں۔

خشوع و خضوع کی طرح نماز کے معانی سے بھی لوگ غافل ہیں حالانکہ یہ نماز کی روح ہے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بندہ کو اپنی نماز کے اتنے حصہ کا اجر ملے گا جو اس نے سمجھا (احیاءالعلوم) اگرچہ ادائیگی سے ضیت پوری نماز کی ساقط ہو جائیگی ۔ علامہ ابن کثیر (رح) کے مطابق ”فویل للمصلین“ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو نماز سوچ سمجھ کر نہیں پڑھتے۔ نماز اذکار اور تعظیمی افعال سے مرکب ہے جنہیں بغیر احساس وشعور کے ادا کرنا ان کے مقاصد پورے نہیں کرتا، عجمیوں کے لیے نماز کے معانی سیکھنا ناممکن نہیں بلکہ ان پڑھ بھی کوشش سے ہفتہ عشرہ میں یاد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تعدیل ارکان خشوع کا اہم جز ہے اور اس میں کوتاہی ایک المیہ ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی سے جو تعدیل ارکان میں کوتاہی کررہا تھا تین دفعہ نماز لوٹوائی اور چوتھی مرتبہ ان کے پوچھنے پر تعدیل ارکان کی اہمیت کے ساتھ سکھائی۔ ایک شخص تعدیل ارکان میں کوتاہی کررہا تھا اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ ایسے ہی نماز پڑھتا رہا تو دین محمدی پر نہیں مرے گا یہ نماز میں ایسی ٹھونگیں مارتا ہے جیسے کوّا خون میں جلدی جلدی چونچیں مارتا ہے(ابن خزیمہ) حضرت حذیفہ (رض) نے ایک ایسے شخص سے جو تعدیل ارکان میں چالیس سال سے کوتاہی کررہا تھا فرمایا کہ تم نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم اس حالت میں مر گئے تو تمہاری موت فطرت اسلام پر نہ ہوگی (کتاب الصلوٰة لابن القیم)

اسی طرح نماز کی باجماعت ادائیگی واجب ہے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کے گھر جلانے کی خواہش فرمائی جو بلاعذر جماعت ترک کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مطابق عہد نبوی میں جماعت سے رہنے والے صرف منافق ہوا کرتے تھے وگرنہ کامل مسلمان تو بیماری کی حالت میں دو آدمیوں کے سہارے بھی چل کر مسجد آجاتا ۔ حضرت ابن مسعود (رض) کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کی نماز قبول ہی نہیں ہوتی ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اذان سن کر جماعت ترک کرنے والے کیلئے بہتر ہے کہ اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا ڈالا جائے ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے تو جمعہ اور جماعت چھوڑنے والے کو جہنمی فرمایا ہے اور گورنر مکہ عتاب بن اسید نے خطبہ میں یہاں تک اعلان فرما دیا کہ (بلاعذر) تارک جماعت کی گردن اڑادوں گا جماعت کی یہی اہمیت مسلمہ ہے جو ان احادیث اور آثار سے معلوم ہوتی ہے اس لئے باجماعت نماز تنہا پڑھی جانیوالی نماز سے ستائیس گنا افضل ہے اور جماعت ہی سے مسلمانوں کے اجتماعی مصالح وابستہ ہیں جماعت کیلئے اہل امام کا انتخاب بھی ضروری ہے آج کل لوگ دنیاوی معاملات میں ہر چیز عمدہ تلاش کرتے ہیں لیکن نماز کے لیے اپنا نمائندہ بنانے میں عمدگی کا لحاظ نہیں رکھتے حالانکہ امامت کے متعلق اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول (یعنی پہلے سے کم درجہ )امام نہ بنے، خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وفات تک امام رہے اور جب امامت ممکن نہ رہی تو اپنے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر (رض) کو یہ منصب سپرد کیا، افضل کے ہوتے ہوئے غیرافضل کے نماز پڑھانے کے بارے میں احادیث میں وارد ہے کہ ایسی قوم تنزلی اور پستی میں رہتی ہے ہمیں اپنی نمازوں پر دنیاوی انعامات نہ ملنے کی تو شکایت ہے لیکن نماز کا حق ادا کرنے کی ذرا فکر نہیں، نماز سے حماعتی مشکلات کی دوری، دشمن پر غلبہ، حصول صبر اور خلافت وتمکین فی الارض کا ملنا یقینی ہے لیکن نماز کی یہ تاثیر تب ظاہر ہوتی ہے جب نماز خشوع وشعور کے ساتھ حضور باجماعت ہو وگرنہ اقامت صلوٰة سے غفلت کے نتیجے میں یہ ثمرات کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟ آج ہماری ذلت، پستی اور مغلوبیت کی بڑی وجہ اقامت صلوٰة سے غفلت ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلاف کا عشق نماز:
ارشاد نبوی ہے :میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے جب نماز کا وقت قریب ہوتا تو آپ فرماتے :بلال اٹھو نماز کا بندوبست کر کے میرے دل کو چین و آرام پہنچاﺅ ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عشق نماز کا اندازہ اس سے لگائیں کہ طائف واحد میں زخمی کرنے والوں کو تو بد دعا نہ دی لیکن جنگ خندق میں کفار کی وجہ سے جب نماز قضا ہوگئی تو آپ نے فرمایا:ان لوگوں نے مجھے عصر کی نماز نہیں پڑھنے دی اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ حضرت ابوبکر (رض) جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو گویا ایک لکڑی ہے جو زمین میں گاڑ دی گئی ہے ۔ حضرت عمر (رض) کو قاتلانہ حملے کے بعد غشی کی حالت میں نماز یاد دلائی گئی تو فرمایا ہاں !نماز ضرور پڑھنی ہے جس نے نماز نہ پڑھی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، ان پہرہ دینے والے دو صحابہ (رض) کا واقعہ معروف ہے جن میں سے ایک آرام کررہا تھا اور دوسرا اپنی باری میں نماز پڑھ رہا تھا کہ دشمن کے کئی تیز انہیں لگے لیکن نماز نہیں توڑی ۔ حضرت ابوطلحہ (رض) کو نماز میں اپنے گھنے باغ کا خیال آیا جس میں پرندہ چکر لگا رہا تھا اس خلل اندازی پر پورا باغ صدقہ کردیا ۔ ایک صحابی (رض) کی نظر نماز کے دوران اپنے باغ کے پکے ہوئے خوشوں پر پڑی اتنا خلل گوارا نہ کیا اور باغ صدقہ کردیا ۔ حضرت خبیب (رض) نے سولی چڑھتے وقت بھی نماز کو یاد رکھا۔ یہ صحابہ کا نماز کے ساتھ عشق تھا ثابت بنانی (رح) قبر میں بھی نماز پڑھنے کی دعائیں کرتے تھے، امام مجدد الف ثانی (رح) اس بات پر روتے رہے کہ جنت میں نماز کے بغیر گزارا کیسے ہوگا؟

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو مومن کی معراج اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا یہ کیفیات امت کو بھی حاصل ہو سکتی ہے بشرطیکہ نماز کے ساتھ ویسا تعلق اور عشق قائم ہو جائے جیسا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ان حضرات کا تھا۔ آمین والحمد للہ رب العلمین

تحریر: مولانا منظور احمد نعمانی
تلخیص وتسہیل :محمد طفیل
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197364 views A Simple Person, Nothing Special.. View More