یہ مبارک نمازیں

تحریر: مدثر جمال تونسوی

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تمام رات نماز پڑھنا
ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی عجیب بات جو آپ نے دیکھی ہو وہ سنا دیں۔حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کون سی بات عجیب نہ تھی۔ ہر بات عجیب ہی تھی۔ ایک دن رات کو تشریف لائے اور میرے پاس لیٹ گئے۔ پھر فرمانے لگے۔ لے چھوڑ میں تو اپنے رب کی عبادت کروں ، یہ فرما کر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور رونا شروع کیا۔ یہاں تک کہ آنسو، سینہ مبارک تک پہنچنے لگے، پھر رکوع فرمایا اس میں بھی اسی طرح روتے رہے پھر سجدہ سے اٹھے اس میں بھی اسی طرح روتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آ کر صبح کی نماز کے لئے آواز دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ اتنے روئے حالانکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اگلے پچھلے سب گناہوں کی ( اگر بالفرض ہوں بھی تو) مغفرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر میں شکر گزار نہ بنوں۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں ایسا کیوں نہ کرتا حالانکہ آج مجھ پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اِنَّ فِی خَلقِ السَّمَوٰتِ وَالاَرضِ آل عمران کا اخیر رکوع۔ متعدد روایات میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم رات کو اس قدر لمبی نماز پڑھا کرتے تھے کہ کھڑے کھڑے پاﺅں پر ورم آجاتا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں حالانکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بخشے بخشائے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں شکر گزار بندہ نہ بنوں

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چار رکعت میں چھ پارے پڑھنا
حضرت عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ہمرکاب تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسواک فرمائی، وضو فرمایا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ میں بھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ بقرہ ایک رکعت میں پڑھی اور جو آیت رحمت کی آتی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس جگہ دیر تک رحمت کی دعا مانگتے رہتے اور جو آیات عذاب کی آتی اس جگہ دیر تک عذاب سے پناہ مانگتے رہتے۔ سورة کے ختم پر رکوع کیا اور اتنا ہی لمبا رکوع کیا جتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی، اور رکوع میں سبحان ذی الجبروت والملکوت والعظمة پڑھتے جاتے تھے۔ پھر اتنا ہی لمبا سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں اسی طرح سورہ آل عمران پڑھی اور اسی طرح ایک ایک رکعت میں ایک ایک سورة پڑھتے رہے۔ اس طرح چار رکعتوں میں سوا چھ سپارے ہوتے ہیں۔ یہ کتنی لمبی نماز ہوئی ہوگی جس میں ہر آیت رحمت اور آیتِ عذاب پر دیر تک دعا کا مانگنا اور پھر اتنا ہی لمبا رکوع اور سجدہ تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنا ایک قصہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا اسی طرح سے نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ چار رکعتوں میں چار سورتیں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ مائدہ کے ختم تک پڑھیں ان چار سورتوں کے سوا چھ سیپارے ہوتے ہیں جو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے چارر کعتوں میں پڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تجوید و ترتیل کے ساتھ پڑھنے کی تھی جیسا کہ اکثر احادیث میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر آیاتِ رحمت اور آیتِ عذاب پر ٹھہرنا اور دعا مانگنا پھر اتنا ہی لمبا رکوع سجدہ۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح چار رکعات میں کس قدر وقت خرچ ہوا ہوگا۔ بعض مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت میں سورہ بقرہ آل عمران مائدہ تین سورتیں پڑھیں جو تقریباً پانچ پارے ہوتے ہیں یہ جب ہی ہو سکتا ہے جب نماز میں چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ اَللّٰھُمَّ ارزُق نِی اِتِّبَاعَہ

صحابہ کرام کی نماز
امام مجاہد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حال نقل کرتے ہیں کہ جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک لکڑی گڑی ہوئی ہے۔ یعنی بالکل حرکت نہیں ہوتی تھی۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نماز سیکھی، اور انہوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یعنی جس طرح حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تھے اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پڑھتے تھے اور اسی طرح عبداللہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔ ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نماز ایسی ہوتی تھی کہ گویا لکڑی ایک جگہ گاڑ دی۔ ایک شخص کہتے ہیں کہ ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب سجدہ کرتے تو اس قدر لمبا اور بے حرکت ہوتا تھا کہ چڑیاں آ کر کمر پر بیٹھ جاتیں۔ بعض مرتبہ اتنا لمبا رکوع کرتے کہ تمام رات صبح تک رکوع ہی میں رہتے۔ بعض اوقات سجدہ اتنا ہی لمبا ہوتا کہ پوری رات گزر جاتی۔ جب حضرت ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑائی ہو رہی تھی تو ایک گولہ مسجد کی دیوار پر لگا جس سے دیوار کا ایک ٹکڑا اڑا اور حضرت ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حلق اور داڑھی کے درمیان کو گزرا مگر نہ ان کو کوئی انتشار ہوا نہ رکوع سجدہ مختصر کیا۔ ایک مرتبہ نماز پڑھ رہے تھے بیٹا جس کا نام ہاشم تھا پاس سو رہا تھا۔ چھت میں سے ایک سانپ گرا اور بچہ پر لپٹ گیا وہ چلایا گھر والے سب دوڑے ہوئے آئے شور مچ گیا اس سانپ کو مارا۔ ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی اطمینان سے نماز پڑھتے رہے۔ سلام پھیر کر فرمانے لگے۔ کچھ شور کی سی آواز آئی تھی کیا تھا۔ بیوی نے کہا اللہ تم پر رحم کرے بچہ کی تو جان بھی گئی تھی تمہیں پتہ ہی نہ چلا۔ فرمانے لگے تیرا ناس ہو، اگر نماز میں دوسری طرف توجہ کرتا تو نماز کہاں باقی رہتی ( ہدایہ وغیرہ) حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اخیر زمانہ میں جب ان کو خنجر مارا گیا جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا تو ہر وقت خون بہتا تھا اور اکثر غفلت بھی ہو جاتی تھی لیکن اس حالت میں بھی جب نماز کے لئے متنبہ کئے جاتے تو اسی حالت میں نماز ادا فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ اسلام میں اُس کا کوئی حصہ نہیں جو نماز چھوڑ دے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تمام رات جاگتے اور ایک رکعت میں پورا قرآن شریف ختم کر لیتے۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب نماز کا وقت آ جاتا تو بدن میں کپکپی آ جاتی اور چہرہ زرد ہو جاتا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے فرمایا کہ اس امانت کا وقت ہے جس کو اللہ جل شانہ نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس کے تحمل سے عاجز ہو گئے اور میں نے اس کا تحمل کیا ہے۔ خلف بن ایوب سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں نماز میں مکھیاں تنگ نہیں کرتیں۔ فرمایا کہ فاسق لوگ حکومت کے کوڑے کھاتے ہیں اور حرکت نہیں کرتے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اور اپنے صبر و تحمل پر اتراتے ہیں کہ اتنے کوڑے مارے میں ہلا تک نہیں۔ میں اپنے رب ک سامنے کھڑا ہوں اور ایک مکھی کی وجہ سے حرکت کر جاﺅں۔

مسلم بن یسار جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے گھر والوں سے کہتے کہ تم باتیں کرتے رہو مجھے تمہاری بات کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔ ایک مرتبہ بصرہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کا ایک حصہ گرا۔ لوگ اس کی وجہ سے دوڑے وہاں جمع ہوئے۔ شور و شغب ہوا مگر ان کو پتہ ہی نہ چلا، حاتم اصم سے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت پوچھی تو کہنے لگے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو وضو کے بعد اس جگہ پہنچ کر جہاں نما زپڑھوں تھوڑی دیر بیٹھتا ہوں کہ بدن کے تمام حصے میں سکون پیدا ہو جائے۔ پھر نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اس طرح کہ بیت اللہ کو اپنی نگاہ کے سامنے سمجھتا ہوں او رپل صراط کو پاﺅں کے نیچے جنت کو دائیں طرف اور جہنم کو بائیں طرف، اور موت کے فرشتے کو اپنے پیچھے کھڑا ہوا خیال کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ آخری نماز ہے اس کے بعد پورے خشوع خضوع سے نما زپڑھتا ہوں اور اس کے بعد امیداور ڈر کے درمیان رہتا ہوں کہ نہ معلوم قبول ہوئی یا نہیں۔

نماز میں تیر لگنا
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ شب کو ایک جگہ قیام فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ آج شب کو حفاظت اور چوکیداری کون کرے گا۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بن بشر نے عرض کیا کہ ہم دونوں کریں گے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پہاڑی جہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہو سکتا تھابتا دی کہ اس پر دونوں قیام کرو۔ دونوں حضرات وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر انصاری نے مہاجر سے کہا کہ رات کو دو حصوں میں منقسم کر کے ایک حصہ میں آپ سو رہیں میں جاگتا رہوں۔ دوسرے حصہ میں آپ جاگیں میں سوتا رہوں کہ دونوں کے تمام رات جاگنے میں یہ بھی احتمال ہے کہ کسی وقت نیند کا غلبہ ہو جائے اور دونوں کی آنکھ لگ جائے۔ اگر کوئی خطرہ جاگنے والے کو محسوس ہو تو اپنے ساتھی کو جگالے۔ رات کا پہلا آدھا حصہ انصاری کے جاگنے کا قرار پایا اور مہاجر صحابی سو گئے۔ انصاری نے نماز کی نیت باندھ لی۔ دشمن کی جانب سے ایک شخص آیا اور دور سے کھڑے ہوئے شخص کو دیکھ کر تیر مارا اور جب کوئی حرکت نہ ہوئی تو دوسرا اور پھر اسی طرح تیسرا تیر مارا اور ہر تیر ان کے بدن میں گھستا رہا اور یہ ہاتھ سے اس کو بدن سے نکال کر پھینکتے رہے اس کے بعد اطمینان سے رکوع کیا، سجدہ کیا، نماز پوری کر کے اپنے ساتھی کو جگایا وہ تو ایک جگہ دو کو دیکھ کر بھاگ گیا کہ نامعلوم کتنے ہوں۔ مگر ساتھی نے جب اٹھ کر دیکھا تو انصاری کے بدن سے تین جگہ سے خون ہی خون بہہ رہا تھا۔ مہاجر نے فرمایا۔ سبحان اللہ تم نے مجھے شروع ہی میں نہ جگا لیا۔ انصاری نے فرمایا کہ میں نے ایک سورة(سورہ کہف) شروع کر رکھی تھی میرا دل نہ چاہا کہ اس کو ختم کرنے سے پہلے رکوع کروں۔ اب بھی مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو میں بار بار تیر لگنے سے مرجاﺅں اور حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو حفاظت کی خدمت سپرد کر رکھی ہے وہ فوت ہو جائے۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں مر جاتا مگر سورة ختم کرنے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔

یہ تھی ان حضرات کی نماز اور اس کا شوق کہ تیر پر تیر کھائے جائیں اور خون ہی خون ہو جائے مگر نماز کے لطف میں فرق نہ پڑے۔ ایک ہماری نماز ہے کہ اگر مچھر بھی کاٹ لے تو نماز کا خیال جاتا رہے۔ بِھڑکا تو پوچھنا ہی کیا۔

نماز میں خیال آ جانے سے باغ وقف کرنا
حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے ایک پرندہ اڑا اور چونکہ باغ گنجان تھا اس لئے اس کو جلدی سے باہر جانے کا راستہ نہ ملا۔ کبھی اس طرف کبھی اس طرف اڑتا رہا اور نکلنے کا راستہ ڈھونڈتا رہا ان کی نگاہ اس پر پڑی اور اس منظر کی وجہ سے ادھر خیال لگ گیا اور نگاہ اس پرندہ کے ساتھ پھرتی رہی دفعتہ نماز کا خیال آیا تو سہو ہوگیا کہ کون سی رکعت ہے نہایت قلق ہوا کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی کہ نماز میں بھول ہوئی فوراً حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ عرض کر کے درخواست کی کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی اس لئے میں اس کو اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔ آپ جہاں دل چاہے اس کو صرف فرما دیجئے۔ اسی طرح ایک اور قصہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیش آیا کہ ایک انصاری اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کھجوریں پکنے کا زمانہ شباب پر تھا اور خوشے کھجوروں کے بوجھ اور کثرت سے جھکے پڑے تھے نگاہ خوشوں پر پڑی اور کھجوروں سے بھرے ہونے کی وجہ سے بہت ہی اچھے معلوم ہوئے۔ خیال ادھر لگ گیا جس کی وجہ سے یہ بھی یاد نہ رہا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔ اس کے رنج اور صدمہ کا ایسا غلبہ ہوا کہ اس کی وجہ سے یہ ٹھان لی کہ باغ ہی کو اب نہیں رکھنا جس کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا کہ یہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ اس کو جو چاہے کیجئے۔ انہوں نے باغ کو پچاس ہزار میں فروخت کر کے اس کی قیمت دینی کاموں میں خرچ فرما دی۔ یہ ایمان کی غیرت ہے کہ نماز جیسی اہم چیز میں خیال آ جانے سے پچاس ہزار درہم کا باغ ایک دم صدقہ کر دیا۔ ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے قول جمیل میں صوفیہ کی نسبت کی قسمیں تحریر فرماتے ہوئے اس کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ یہ نسبت ہے اللہ کی اطاعت کو ماسویٰ پر مقدم رکھنا اور اس پر غیرت کرنا کہ ان حضرات کو اس پر غیرت آئی کہ اللہ کی اطاعت میں کسی دوسری چیز کی طرف توجہ کیوں ہوئی؟

آنکھ نہ بنوانا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں جب پانی اتر آیا تو آنکھ بنانے والے حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اجازت ہو تو ہم آنکھ بنا دیں لیکن پانچ دن تک آپ کو احتیاط کرنا پڑے گی کہ سجدہ بجائے زمین کے کسی اور لکڑی پر کرنا ہو گا۔ انہوں نے فرمایا یہ ہر گز نہیں ہو سکتا واللہ ایک رکعت بھی اس طرح پڑھنا مجھے منظور نہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مجھے معلوم ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان کر چھوڑ دے وہ حق تعالیٰ شانہ سے ایسی طرح ملے گا کہ حق سبحانہ وتقدس اس پر ناراض ہوں گے۔( اگرچہ شرعاً نماز اس طرح سے مجبوری کی حالت میں پڑھنا جائز ہے اور یہ صورت نماز چھوڑنے کی وعید میں داخل نہیں ہوتی مگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز کے ساتھ جو شغف تھا اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پر عمل کی اس قدر اہمیت تھی اس کی وجہ سے حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آنکھ بنوانے کو بھی پسند نہ کیا کہ ان حضرات کے نزدیک ایک نماز پر ساری دنیا قربان تھی۔

نماز کے وقت فوراً دکانیں بند کرنا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بازار میں تشریف رکھتے تھے کہ جماعت کا وقت ہو گیا دیکھا کہ فوراً سب کے سب اپنی اپنی دکانیں بند کر کے مسجد میں داخل ہو گئے۔ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی شان میں یہ آیات نازل ہوئی رِجَال لَا تُل ھِیھِم تِجِارَة وَّلَابَیع عَن ذِکرِ اللّٰہِ ( سورہ نور پارہ ۸۱) ترجمہ پوری آیات شریفہ کا یہ ہے کہ ان مسجدوںں میں ایسے لوگ صبح اور شام اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد سے اور بالخصوص نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ خریدنا غفلت میں ڈالتا ہے نہ بیچنا۔ وہ ایسے دن کی پکڑ سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جائیں گی۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام تجارت وغیرہ اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوتے تھے لیکن جب اذان کی آواز سنتے تو سب کچھ چھوڑ کر فوراً مسجد میں چلے جاتے۔ ایک جگہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم یہ لوگ تاجر تھے مگر ان کی تجارت ان کو اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی تھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بازار میں تشریف رکھتے تھے کہ اذان ہو گئی انہوں نے دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے سامان کو چھوڑ کر نماز کی طرف چل دیئے۔ ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ جل شانہ نے لَا تُل ھِی ھِم تِجِارَة وَّلَابَیع عَن ذِکرِ اللّٰہِ سے یاد فرمایا۔ ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جب حق تعالیٰ شانہ تمام دنیا کو ایک جگہ جمع فرمائیں گے تو ارشاد ہوگا: کہاں ہیں وہ لوگ جو خوشی اور رنج دونوں حالتوں میں اللہ کی حمد کرنے والے تھے۔ تو ایک مختصر جماعت اٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی۔ پھر ارشاد ہوگا کہاں ہیں وہ لوگ جو راتوں میں اپنی خواب گاہ سے دور رہتے اور اپنے رب کو خوف اور رغبت کے ساتھ یاد کرتے تھے تو ایک دوسری مختصر جماعت اٹھے گی اور وہ بھی جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائے گی۔ پھر ارشاد ہوگا کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارت یا بیچنا اللہ کے ذکر سے نہیں روکتا تھا تو ایک تیسری جماعت مختصر سی کھڑی ہوگی اور جنت میں بغیر حساب داخل ہوگی۔ اس کے بعد بقیہ لوگوں کا حساب شروع ہو جائے گا۔

سَالِم حَدَّاد ایک بزرگ تھے تجارت کرتے تھے جب اذان کی آواز سنتے تو رنگ متغیر ہوجاتا اور زرد پڑ جاتا، بے قرار ہو جاتے، دکان کھلی چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے اور یہ اشعار پڑھتے:
اذامادعا داعیکم قمت مسرعا
مجیباً لمولیٰ جل لیس لہ مثل
جب تمہارا منادی( مؤذن) پکارنے کے واسطے کھڑا ہو جاتا ہے تو میں جلدی سے کھڑا ہو جاتا ہوں ایسے مالک کی پکار کو قبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے اس کا کوئی مثل نہیں۔
اُجِیبُ اِذَا نَادٰی بِسَمعٍٍ وَّطَاعةٍ
وَبِی نَش وَة لَبَّی کَ یَامَن لَّہُ الفَضل
اور وہ منادی ( مؤذن) پکارتا ہے تو میں خوش دلی اور اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ جواب میں کہتا ہوں کہ اے فضل و بزرگی والے لبیک یعنی حاضر ہوتا ہوں۔
ویصفرلونی خیفة ومہابة
ویرجع لی عن کل شغل بہ شغل
اور میرا رنگ خوف اور ہیبت سے زرد پڑ جاتا ہے اور اس پاک ذات کی مشغولی مجھے ہر کام سے بے خبر کر دیتی ہے۔
وحقکم مالذلی غیرذکر کم
وذکر سواکم فی فمی قط لایحلو
تمہارے حق کی قسم تمہارے ذکر کے سوا مجھے کوئی چیز بھی لذیذ نہیں معلوم ہوتی اور تمہارے سوا کسی کے ذکر میں بھی مجھے مزہ نہیں آتا۔
متیٰ یجمع الانام بینی وبینکم
ویفرح مشتاق اذاجمع الشمل
دیکھئے زمانہ مجھ کو اور تم کو کب جمع کرے گا اور مشتاق تو جب ہی خوش ہوتا ہے جب اجتماع نصیب ہوتا ہے۔
فمن شاھدت عیناہ نورجمالکم
یموت اشتیاقاً نحوکم قط لَایسلو
جس کی آنکھوں نے تمہارے جمال کا نور دیکھ لیا ہے تمہارے اشتیاق میں مر جائے گا کبھی بھی تسلی نہیں پا سکتا۔

تکبیر کے وقت
ایک شخص نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ذوالنون مصری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی جب انہوں نے اللہ اکبر کہا تو لفظ اللہ کے وقت ان پر جلال الٰہی کا ایسا غلبہ تھا گویا ان کے بدن میں روح نہیں رہی بلکہ مبہوت ہو گئے اور جب اکبر زبان سے کہا تو میرا دل ان کی اس تکبیر کی ہیبت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

تمام رات رکوع یا سجدہ
حضرت اویس قرنی مشہور بزرگ اور افضل ترین تابعی ہیں۔ بعض مرتبہ رکوع کرتے اور تمام رات اسی حالت میں گزار دیتے کبھی سجدہ میں یہ حالت ہوتی کہ تمام رات ایک ہی سجدہ میں گزار دیتے۔

عصام نے حضرت حاتم زاہد بلخی سے پوچھا کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ فرمایا کہ جب نماز کا وقت آتا ہے اول نہایت اطمینان سے اچھی طرح وضو کرتا ہوں پھر اس جگہ پہنچتا ہوں جہاں نما زپڑھنا ہے اور اول نہایت اطمینان سے کھڑا ہوتا ہوں کہ گویا کعبہ میرے منہ کے سامنے ہے اور میرا پاﺅں پل صراط پر ہے، داہنی طرف جنت ہے بائیں طرف دوزخ ہے۔ موت کا فرشتہ میرے سر پر ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے، پھر کوئی اور نماز شاید میسر نہ ہو، اور میرے دل کی حالت کو اللہ ہی جانتا ہے اس کے بعد نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ اکبر کہتا ہوں، پھر معنی کو سوچ کر قرآن پڑھتا ہوں، تواضع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں، عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں اور اطمینان سے نماز پوری کرتا ہوں، اس طرح کہ اللہ کی رحمت سے اس کے قبول ہونے کی امید رکھتا ہوں اور اپنے اعمال سے مردود ہو جانے کا خوف کرتا ہوں۔ عصام نے پوچھا کہ کتنی مدت سے آپ ایسی نماز پڑھتے ہیں؟حاتم نے کہا تیس برس سے، عَصَام رونے لگے کہ مجھے ایک بھی نماز ایسی نصیب نہ ہوئی۔ کہتے ہیں کہ حاتم کی ایک مرتبہ جماعت فوت ہو گئی جس کا بے حد اثر تھا ایک دو ملنے والوں نے تعزیت کی۔ اس پر رونے لگے اور فرمایا کہ اگر میرا ایک بیٹا مر جاتا تو آدھا بلخ تعزیت کرتا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ دس ہزار آدمیوں سے زیادہ تعزیت کرتے جماعت کے فوت ہونے پر ایک دو آدمیوں نے تعزیت کی۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ دین کی مصیبت لوگوں کی نگاہ میں دنیا کی مصیبت سے ہلکی ہے۔

حضرت سعید بن المُسِیب کہتے ہیں کہ بیس برس کے عرصہ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اذان ہوئی ہو اور میں مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہوں۔ محمد بن واسع کہتے ہیں کہ مجھے دنیا میں صرف تین چیزیں چاہئیں ایک ایسا دوست ہو جو میری لغزشوں پر متنبہ کرتا رہے۔ ایک بقدر زندگی روزی جس میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔ ایک جماعت کی نماز ایسی کہ اس میں جو کوتاہی ہو جائے وہ تو معاف ہو اور ثواب جو ہو مجھے مل جائے۔ حضرت ابوعبیدة بن الجرح نے ایک مرتبہ نماز پڑھائی، نماز کے بعد فرمانے لگے کہ شیطان نے اس وقت مجھ پر ایک حملہ کیا، میرے دل میں یہ خیال ڈالا کہ میں افضل ہوں( اس لئے کہ افضل کو امام بنایا جاتا تھا) آئندہ کبھی بھی نماز نہیں پڑھاﺅں گا میمون بن مہران ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لے گئے تو جماعت ہو چکی تھی انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا کہ اس نماز کی فضیلت مجھے عراق کی سلطنت سے بھی زیادہ محبوب تھی۔

ان حضرات کرام میں سے جس کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تین دن تک اس کا رنج کرتے تھے اور جس کی جماعت جاتی رہتی سات دن تک اس کا افسوس کرتے تھے۔

بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اگر تو اپنے مالک اپنے مولا سے بلاواسطہ بات کرنا چاہے تو جب چاہے کر سکتا ہے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا صورت ہے۔ فرمایا کہ اچھی طرح وضو کر اور نماز کی نیت باندھ لے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہم سے باتیں کرتے تھے اور ہم حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آ جاتا تو ایسے ہو جاتے گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں اور ہمہ تن اللہ کی طرف مشغول ہو جاتے تھے۔ سعید تنوحی جب تک نماز پڑھتے رہتے مسلسل آنسوﺅں کی لڑی رخساروں پر جاری رہتی۔

بہجة النفوس میں لکھا ہے کہ ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو نماز پڑھ رہے تھے ، ایک چور آیا اور گھوڑا کھول کر لے گیا۔ لے جاتے ہوئے اس پر نظر بھی پڑ گئی، مگر نماز نہ توڑی، بعد میں کسی نے کہا بھی کہ آپ نے پکڑ نہ لیا۔ فرمایا جس چیز میں مشغول تھا وہ اس سے بہت اونچی تھی۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تو قصہ مشہور ہے کہ جب لڑائی میں ان کے تیر لگ جاتے تو وہ نماز ہی میں نکالے جاتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ران میں ایک تیر گھس گیا لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی نہ نکل سکا آپس میں مشورہ کیا کہ جب یہ نماز میں مشغول ہوں اس وقت نکالا جائے۔ آپ نے جب نفلیں شروع کیں اور سجدہ میں گئے تو ان لوگوں نے اس کو زور سے کھینچ لیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آس پاس مجمع دیکھا، فرمایا کیا تم تیر نکالنے کے واسطے آئے ہو، لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو ہم نے نکال بھی لیا۔ آپ نے فرمایا مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔

امام اعظم ابو حنیفہ کی نماز
امام ابو حنیفہ علوم حدیث کے تمام سر چشموں سے سیراب تھے اور اس میں ان کو جامعیت حاصل تھی ایک مرتبہ خلیفہ منصور کے یہاں گئے عیسیٰ بن موسیٰ نے امام صاحب کے بارے میں بتایا کہ آج یہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ خلیفہ منصور نے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا۔ امام صاحب نے جواب دیا: حضرت عمر کا علم اصحاب عمر سے، حضرت علی کا علم اصحاب علی ہے، حضرت ابن مسعود کا علم اصحاب مسعود سے حضرت ابن عباس کا علم اصحاب ابن عباس سے۔ اور حضرت ابن عباس کے زمانہ میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں تھا۔ یہ سن کر خلیفہ منصور نے کہا آپ نے بہت ہی معتبر و مستند علم حاصل کیا ہے۔

ابو نعیم کہتے ہیں کہ میں بہت سے علماء کی صحبت میں رہا ہوں اور ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے مگر کسی کو امام صاحب سے اچھی نماز پڑھنے والا نہیں دیکھا۔ وہ نماز سے پہلے دعا اور گریہ و زاری کرتے تھے اور دیکھنے والے بے ساختہ بول اٹھتے تھے واﷲ یہ شخص اﷲ سے ڈرتا ہے۔ خود امام صاحب کا یہ بیان ہے کہ ”قرآن پاک میں کوئی ایسی سورة نہیں جس کو میں نے نفل نماز میں نہ پڑھا ہو۔“

خارجہ بن معیوب کابیان ہے کہ چار ائمہ دین نے ایک رکعت میں پورا قرآن پاک ختم کیا ہے وہ یہ ہیں۔۱۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ۲۔ حضرت تمیم داری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ۳۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور۴۔ حضرت امام ابو حنیفہرضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت زائدہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی امام صاحب کو میری خبر نہیں تھی دراصل مجھے تنہائی میں ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا اس لئے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے۔ امام صاحب نے نفل نماز شروع کر دی اور رات بھر ایک آیت دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور میں ان کے انتظار میں رہا۔

قاضی ابو یوسف کہتے ہیں کہ”ایک مرتبہ میں امام صاحب کے ساتھ جا رہا تھا راستہ میں لڑکوں نے دیکھ کر شور مچایا یہی ابو حنیفہ ہیں جو رات کو نہیں سوتے۔“

شریک کا بیان ہے کہ میں ایک سال تک امام صاحب کی صحبت میں رہا ہوں اس مدت میں ان کو کبھی رات میں بستر پر نہیں پایا۔

عبدالمجید بن ابور کہتے ہیں کہ میں نے ایام حج میں امام صاحب سے زیادہ طواف، نماز اور فتویٰ میں مشغول کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ تمام رات وتمام دن عبادت میں رہ کر تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔ میں مسلسل دس دن تک دیکھتا رہا کہ وہ طواف ، نماز اور تعلیم میں مصروف رہ کر نہ رات کو سوتے نہ دن میں ایک گھنٹہ آرام کیا۔

امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز
امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ نے پوری تعلیم مدینہ منورہ میں حاصل کی۔ اس زمانہ میں مدینہ علم دین اور علمائے دین کا مرکز تھا، اور پورے اسلام کے اہل علم اسی سرچشمہ علم دین کے پاس آتے تھے۔

امام صاحب ذہانت، محنت اور ذوق و شوق کی بنا پر سترہ سال کی عمر میں جملہ دینی علوم میں درجہ کمال کو پہنچ گئے تھے۔

مصعب بن عبداﷲ کا بیان ہے کہ جب امام صاحب کے سامنے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا تھا تو ان کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا۔

امام صاحب ہر ماہ کی پہلی رات کو پوری رات عبادت کرتے تھے۔ صاحبزادی فاطمہ بیان کرتی کہ امام صاحب ہر رات اپنا وظیفہ(نوافل) پورا کرتے تھے اور جمعہ کی رات میں پوری رات عبادت میںمشغول رہتے تھے۔

مغیرہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کو امام صاحب نے الحمدﷲ کے بعد الہاکم التکاثر کی آیت لتسئلن یومئذ عن النعیم O پر پہنچے تو دیر تک روتے رہے اور یہی آیت دہراتے رہے۔ صبح ہوتے ہوئے رکوع کیا ان کے چہرے پر نور چمک رہا تھا۔

امام صاحب نوافل میں طویل رکوع و سجود کرتے تھے۔ نفل عبادت تنہائی میں کرتے تھے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے اور ان کی بزرگی کا شہرہ نہ ہو۔

امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز
ربیع کا بیان ہے کہ امام شافعی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ ہر رات ایک ختم قرآن کرتے تھے اور رمضان میں دن رات میں دو ختم پڑھتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ ”رمضان المبارک میں ساٹھ ختم قرآن پاک نماز میں پڑھتے تھے۔ حسین بن کرابیسی کہتے ہیں کہ امام صاحب کے ساتھ کئی راتیں گزاریں۔ وہ تہائی رات تک نوافل میں پچاس سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے اور پھر ہر آیت میں مسلمانوں کے لئے دعا کرتے تھے۔ عذاب کی آیت پر اﷲ کی پناہ مانگتے تھے۔

امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز
ابراہیم بن شماس کا بیان ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ کو بچپن سے جانتا ہوں وہ اس زمانہ میں بھی رات کو عبادت کرتے تھے ان کے صاحبزادے عبداﷲ کا بیان ہے کہ ”والد روزانہ رات دن میں تین سو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے اور درہ زنی کے بعد بیمار ہو گئے تو رات دن میں ڈیڑھ سو رکعات پڑھتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال کے قریب تھی، روزانہ ساتواں حصہ قرآن پڑھتے تھے۔ عشاء کے بعد تھوڑا سا سو کر صبح تک نماز میں مشغول رہتے تھے۔

ایک مرتبہ امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ، امام یحییٰ بن معین رحمتہ اﷲ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ ایک ساتھ مکہ مکرمہ گئے اور ایک ہی مکان میں قیام کیا۔ امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ اور امام یحییٰ رحمتہ اﷲ علیہ لیٹ گئے اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ نماز پڑھنے لگے۔ صبح کو امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا میں نے رات دو سو مسائل حل کئے۔ امام یحییٰ رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا میں نے دو سو احادیث کو کذاب سے محفوظ کیا۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا میں نے نماز میں ایک قرآن ختم کیا ہے۔

ابراہیم بن ہانی کا بیان ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ جب تک میرے مکان میں رہے ان کا معمول رہا کہ دن میں روزہ رکھتے تھے افطار میں جلدی کرتے تھے اور عشاء کے بعد نفل پڑھ کر تھوڑا سو جاتے۔ اس کے بعد اٹھ کر وضو کرتے اوررات بھر نماز میں مشغول رہتے تھے۔

امام ابو یوسف رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز
اما ابو یوسف رحمتہ اﷲ علیہ علمی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے علاوہ قاضی القضاة ہونے کی وجہ سے قضا کے مسائل علیحدہ تھے۔ پھر بھی دوسو رکعت نوافل روزانہ پڑھتے تھے۔

محمد بن سماعہ رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز
امام ابو یوسف رحمتہ اﷲ علیہ اور امام محمد رحمتہ اﷲ علیہ کے شاگرد محمد بن سماعہ رحمتہ اﷲ علیہ کا انتقال ایک سو تیس برس کی عمر میں ہو اس وقت دو سورکعت نفل روزانہ پڑھتے تھے۔

کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی۔صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولیٰ فوت ہوگئی تھی۔

امہات المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گزار تھیں۔ چاشت کی نماز برابر پڑھتی تھیں۔ راتوں کو اٹھ کو تہجد کی نماز اداکرتی تھیں۔

حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
ایک مرتبہ حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ بڑی دیر تک رکوع میں رہے۔ صبح ہوئی تو آپ کہنے لگیں: یا رسول اﷲ! رات کو نماز میں آپ نے اتنی دیر تک رکوع کیا کہ مجھے اپنی نکسیر پھوٹنے کا اندیشہ ہو گیا۔ چنانچہ میں بڑی دیر تک اپنی ناک سہلاتی رہی۔“

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات سن کر مسکرانے لگے۔

حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا تھا کہ جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا چنانچہ میں بارہ رکعت نفل روازنہ پڑھتی ہوں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عقبہ کے شاگرد عمرو بن اویس اور عمرو کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے رہے۔

حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
ام المومنین حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عبادت کا خاص ذوق تھا۔ نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ عبادت کیا کرتی تھیں ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ہمراہ تھے دیکھتے کیا ہیں کہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نماز اور دعا میں مشغول ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”البتہ تحقیق یہ بڑی نرم دل ہے“ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے متعلق فرماتی ہیں”بڑی نیک اور روزہ رکھنے والی اور بڑی تہجد گزار تھیں۔“

جب حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے سنا ” افسوس آج ایسی عورت گزر گئی جو بڑی پسندیدہ اوصاف والی، عبادت گزار اور یتیموں اور بیواؤں کا ٹھکانہ تھی۔“

حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے گھر میں ایک جگہ مسجد کے نام سے عبادت کے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔

حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بنت حارث
ام المومنین حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عبادت کا اتنا ذوق تھا کہ عبادت کے لئے گھر میں مسجد کے نام سے ایک جگہ مخصوص کررکھی تھی چنانچہ جامع ترمذی میں با سناد صحیح حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روای ہیں کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علی الصبح گھر میں تشریف لائے اور میں مشغول عبادت تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم واپس چلے گئے قریب نصف النہار کے پھر تشریف لائے اور مجھ کو اسی طرح مشغول عبادت دیکھا تو فرمایا: ”کیا تم اس وقت سے اب تک اسی حالت میں ہو؟“ میں نے کہا” ہاں“ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم کو کچھ کلمات بتائے دیتا ہوں وہ پڑھ لیا کرو۔“
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 195140 views A Simple Person, Nothing Special.. View More