حقیقت میلاد النبی - باسٹھواں حصہ

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں چراغاں:-

مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں :

اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :

وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.

’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘

ابن ظهيرة، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202

علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.

’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کر کے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘

قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356

اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔

جلوسِ میلاد:-

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا ضروری حصہ بن چکا ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :

کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے :

’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘

حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :

فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!

’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970
3. أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116
4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65

اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :

جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘

روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329

معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ

أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ

(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)

1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131
2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82
3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373
4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507
6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129
10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634
11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101
12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323

دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔

میلاد کی تقریبات کے سلسلے میں انتظام و انصرام اور ہر وہ کام انجام دینا جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو شرعی طور پر مطلقاً جائز ہے۔ اس طرح محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز! عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.