ساریکا (ایک ان دیکھا وجود ) قسط ١

میرا نام اقبال حسین ہے ۔ میرا تعلق خانیوال شہر کے ایک گاؤں آریا نگر سے ہے ۔ کام کے سلسلے میں مجھے لاہور شہر آنا پڑا اور میں نے اپنی زندگی تقریبا ً نوے سال اس شہرمیں گزار دیے ہیں ۔ ان نوےسالوں میں ، میں نے بہت کچھ دیکھا ، سیکھا اور کمایا بھی بہت اور گنوایا بھی بہت ۔ مگر جو وقت میں نے ساریکا کے ساتھ گزارا وہ نہ کبھی لوٹ کر آئے گا اور نہ ہی ساریکا کبھی مجھے بھول پائے گی ۔ ساریکا ۔۔۔۔۔۔۔ایک ان دیکھا وجود جس کو میں نے آج تک نہیں دیکھا مگر محسوس کیا ۔۔۔۔۔بہت اچھے طریقے سے محسوس کیا ۔ آج بھی جب میں سوچتا ہوں تو سارے بدن میں ایک جھر جھری سے آ جاتی ہے ۔ جب بھی لیٹتا ہوں اپنے بائیں طرف ضرور دیکھتا ہوں کہ شاید وہ اب بھی میرے ساتھ ہو گی لیکن نہیں ۔۔۔۔ ساریکا کہاں گئی ۔۔۔۔۔۔کدھر گئی ۔۔۔۔۔کیوں گئی ۔۔۔۔۔ان سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے اور نہ ہی میں جانتا ہوں کہ میری زندگی میں آکر اور اُس کو بدل کر جانے والی ساریکا اب کہاں ہے اور کس کی زندگی میں تبدیلی لا رہی ہے ۔ اُس کاساتھ آپ کو بادشاہ بنا دے گایا پھر فقیر ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی آپ کے اُوپر ہے کہ آپ بادشاہ بننا پسند کریں گے یا فقیر ۔۔۔۔۔۔میں نے کیا بننا چاہا اور میں کیا بن گیا وہ میرے اختیار میں نہیں تھا مگر جب آپ میری آپ بیتی سنیں گےحیرت میں ڈوب جائیں گے یا ایک سوچ کے سمندر میں غرق ہو جائیں گے ۔

مجھے بچپن سے ہی خوفناک کہانیاں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کا شوق تھا ۔ صرف شوق کی حد تک اس سے زیادہ نہیں اور نہ ہی کبھی یہ شوق رکھنا کہ کبھی جن یا پری زاد ، یا کسی چڑیل سے سامنا ہو جائے ۔ کہانیوں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میرا شوق ہی ایک دن مجھے کہاں سے کہاں لے جائے گا ۔ تعلیم سے فارغ ہو کر ایک پرائیوٹ فرم میں مجھے کلرک کی جاب مل گئی تھی صبح نو سے شام پانچ بجے تک میرے آفس کا ٹائم تھا کبھی کبھار کام کی زیادتی کی وجہ سے رات کے نو ،دس بج جاتے ۔میرا دفتر لاہور کے علاقے گلبرگ میں تھا ۔ جس جگہ میرا دفترتھا وہ ایک رہائشی علاقہ تھا اور تین کوٹھیاں چھوڑ کر ایک قبرستان اورپھر اُس کے بعد رہائشی کوٹھیاں بنی ہوئی تھیں ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے لاہور میں سردیوں کا موسم چل رہا تھا دسمبر کا ماہ ختم اور جنوری کا ماہ شروع ہونے کو تھا ۔ شام ہوتے ہی چاروں طرف دھند ہی دھند دکھائی دیتی چھ بجے کے وقت ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے رات کے دس بجے کا وقت ہو گیا ہے ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ دھند سے پہلے ہی گھر کی راہ لی جائے ۔ میں نے آفس کے نزدیک ہی ایک فلیٹ کرائے پر لیا ہوا تھا اور پانچ منٹ کی واک کے بعد میرا فلیٹ آ جاتا تھا ۔ مجھے فلیٹ تک جانے کے لیے قبرستان کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا ۔ میرے والدین آریا نگر (خانیوال)میں رہتے تھے ۔ میری ایک ہی بہن تھی جس کی شادی ہو چکی تھی ۔ اب والدین کو میری شادی کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ میں جلد ہی اپنے گھر بسا لوں ۔ آئے دن کسی نہ کسی لڑکی کے بارے میں میری ماں مجھے اطلاع دیتی کہ آج وہ دیکھ کر آئی تم ایک دفعہ آ جاؤ اور اپنا گھر بسا لو۔ میں کام کا بہانہ کر کے وقت کو گزار دیتا ۔ وجہ اس کی یہ بھی تھی میں ابھی شادی کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا کہ جب ترقی ہو جائے گی اچھی پوسٹ پہنچوں گا تب جا کر شادی بھی کر لوںگا ۔ نئے سال کا آغاز ہو چکا تھا کام کے سلسلے میں مجھے دفتر رکنا پڑا تقریباً رات دس بجے میں آفس سے فارغ ہوا اور اپنے فلیٹ کے لیے روانہ ہوا ۔ چاروں طرف دھند کا راج تھا سڑک کے کنارے بجلی کےپول لگے ہوئے تھے جن سے روشنی پھوٹ رہی تھی اور اپنی پوری کوشش میں تھی کسی نہ کسی طرح زمین تک پہنچے مگر دھند بھی اپنی کوشش میں تھی کہ اُس کا راج قائم رہے ۔ میں معمول کے مطابق جیکٹ میں ہاتھ ڈالے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا ۔ پانچ منٹ کے بعد میرا فلیٹ آ جاتا تھا۔میں نے وقت دیکھنے کے لیے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا تو اُس میں رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے ۔ میں نے حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں میں دھند کی وجہ سے کافی آگے نکل آیا ہوں اور میرا فلیٹ پیچھے رہ گیا ہے ۔ میں ٹھیک دس بجے دفتر سے نکلا تھا اور دس بج کر پانچ منٹ پر مجھے اپنے فلیٹ پر ہونا چاہیے تھا ۔ مگر اب آدھا گھنٹہ اُوپر ہو چکا تھا اور میں ابھی تک اپنے فلیٹ میں نہیں پہنچا تھا ۔ بات یہی سمجھ میں آئی کہ میں دھند کی وجہ سے میں کافی گے نکل آیا ہوں ۔ میں نے اپنے دائیں جانب دیکھا دھند کی وجہ سے مجھے کچھ نظر نہ آیا بائیں جانب دیکھنے پر چھوٹ سی دیوار نظر آئی جو دھند ہونے کے باوجود صاف نظر آ رہی تھی میں نے قریب جا کر دیکھا تو میرے اوسان خطا ہو گئے اور حیرت سے میں دیوار کے دوسری جانب دیکھ رہا تھا جو کہ قبرستان تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ تین گھر چھوڑ کر قبرستان شروع ہوتا ہے اور اُس کے بعد پھر گھر شروع ہوتے ہیں پانچ منٹ بعد وہ جگہ آ جاتی ہے جہاں پر میرا فلیٹ موجود تھا ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے آدھے گھنٹے بعد بھی ابھی تک قبرستان کی دیوار ختم نہیں ہوئی تھی ۔میں نے دوبارہ گھڑی پر نظر ڈالی تو اب میری حیرانگی میں اضافہ ہو چکا تھا میری گھڑی دس بج کر دو منٹ بتا رہی تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے دس بج کر تیس منٹ اور اب دس بج کر دو منٹ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اتنی شدید سردی میں ماتھے پر خوف کے مارے پسینہ آ گیا کہ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے میں پچھلے آدھے گھنٹے سے سڑک پر چل رہاہوں اور نہ ہی میرا فلیٹ آ رہا ہے اور نہ ہی قبرستان ختم ہو رہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے کیا ہوا میرے ساتھ ۔۔۔۔۔ جاننے کے لیے دوسری قسط کا انتطار کریں ۔
 
Faisal Bhatti
About the Author: Faisal Bhatti Read More Articles by Faisal Bhatti: 15 Articles with 12891 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.