قربانی تحریر محمد وسیم بلوچ

(Muhammad Waseem, Lahore)

قربانی

پاپا پاکستان کا مطلب کیا ہے؟
نو سالہ عمیر نے والد کی آغوش میں سر رکھتے ہوئے معصومانہ انداز میں استفسار کیا تھا

پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔
شفیق احمد نے شفقت سے بیٹے کے گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے جواب دیا تھا اور پیار سے اس کے بالوں میں کنگھی کی صورت انگلیاں پھیرنے لگا۔

پاپا کیا ہم سب پاک ہیں؟
عمیر کے سوال پر شفیق احمد نے تعجب بھری نظروں سے عمیر کی طرف دیکھا تھا کیونکہ اس کو عمیر سے اس طرح کے سنجیدہ سوال کی توقع نہیں تھی لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ عمیر بلکل سنجیدہ ہے۔

پاپا آپ نے ابھی کہا کہ پاکستان کا مطلب ہے کہ پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ تو کیا یہاں رہنے والے سب لوگ پاک ہیں ؟
عمیر نے باپ کو متحیر اور خاموش پا کر اپنا سوال دوہرایا تھا

ہاں بیٹا یہاں رہنے والے سب لوگ پاک ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن بیٹا تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟
شفیق احمد نے آخر کار عمیر احمد کو مطمئن کرنے کےلیے جواب ڈھونڈ ہی لیا تھا۔

لیکن پاپا کل ٹی وی پر دکھا رہے تھے کہ ایک سات سال کی بچی کو کسی نے اغوا کرنے کے بعد جان سے مار دیا ہے۔ بابا اس بچی کا کیا قصور تھا اس کو جان سے کیوں مارا گیا؟
عمیر کی بات نے اس کا جگر چھلنی کر دیا تھا۔

ایک اور نیوز چینل پر بتا رہے تھے کہ ایک خود کش حملہ آور نے فوجیوں کی چوکی پر خود کش دھماکہ کر دیا جس میں کئی فوج شہید ہوگئے ہیں۔

پاپا آپ تو کہتے ہیں کہ فوجی اپنے وطن کے رکھوالے ہوتے ہیں تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی محافظوں کو ہی مار رہے ہیں؟
عمیر کے اگلے سوال نے شفیق احمد کے دل کو چیر کے رکھ دیا اس نے جواب دینے کی بجائے عمیر کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا کیونکہ اس کے سوال نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔

کیا ہوا پاپا آپ خاموش کیوں ہو گئے ؟
اگر یہاں سب لوگ پاک ہیں تو وہ لوگ کون تھے ؟ کسی معصوم کی جان لینے والے پاک تو ہرگز نہیں ہو سکتے؟
تو پھر یہ برے لوگ پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ پر کیا کر رہے ہیں؟
عمیر ہر حال میں اپنے سوال کا جواب چاہتا تھا۔

بیٹا پاک لوگوں میں کچھ غلیظ اور ناپاک لوگ بھی رہتے ہیں جو اس پاک دھرتی کو اپنے گندے وجود سے ناپاک کر رہے ہیں کیونکہ ان کو پاکستان میں بد امنی پھیلانے کیلئے فنڈنگ کی جاتی ہے۔
شفیق احمد نے تاسف سے جواب دیا تھا۔

بابا ایسے گندے لوگوں کو پاک دھرتی پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ان کو نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ تو پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے ناں؟
عمیر احمد بھی باپ کی بات پر اداس ہوگیا تھا۔

یہ نا ممکن ہے بیٹا کیونکہ ایسے لوگوں نے خود کو شرافت کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے اس لیے ایسے بھیڑیوں کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے جو میرے پیارے وطن کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں لیکن ان شاءاللہ ایک نہ ایک دن ہم پاکستان سے ان کالی بھیڑوں کا خاتمہ کردیں گے اور پھر یہاں صرف پاک لوگوں کا ٹھکانہ ہوگا جو اسلام اور پاکستان کی سربلندی کےلیے کام کریں گے۔
شفیق احمد نے ایک عزم سے کہا تھا۔

جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو ایسے لوگوں کو چن چن کر ماروں گا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دوں گا کیونکہ برے لوگ اچھے لوگوں میں نہیں رہ سکتے۔
عمیر نے باپ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔

ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا میرے شیر۔
شفیق احمد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
________________________________________
شفیق احمد پاکستان آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھا ہر محب وطن پاکستانی کی طرح پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں پر اس کا دل بھی کڑھتا تھا ان دنوں اس کی ڈیوٹی وزیرستان میں لگی ہوئی تھی وہ ایک بڑے سے پتھر سے ٹیک لگائے عمیر سے ہونے والی گفتگو کو یاد کرکے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔

کیا بات ہے کیپٹن اکیلے اکیلے مسکرا رہے ہیں؟
اس کے دوست کیپٹن عدنان نے اس کو اکیلے بیٹھ کر مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا تھا وہ اکثر اس سے باتیں کرکے دل ہلکا کیا کرتا تھا۔

ہاں یار عمیر کی باتیں یاد کرکے مسکرا رہا ہوں۔
کیپٹن شفیق نے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔

ایسی کونسی باتیں ہیں کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے ؟
کیپٹن عدنان بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا

اس کو لگتا ہے کہ یہ پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لیے برے لوگوں کو یہاں سے چلے جانا چاہیے ورنہ وہ بڑا ہو کر ایسے لوگوں کو پکڑے گا اور پاک سر زمین سے باہر نکال دے گا تاکہ پاک سر زمین برے لوگوں سے پاک ہو جائے۔
وہ پاکستان میں ہونے والی بدامنی اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر افسردہ ہے۔ دیکھ یار وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے جو وطن عزیز کےلیے پریشان ہیں اور وہ لوگ جو پاکستان کا کھا کر پھر پاکستان کے خلاف ہی زہر اگلتے ہیں ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا ؟
کیپٹن شفیق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا

فوجی کا بیٹا ہے اس لیے خون جوش تو مارے گا
کیپٹن عدنان نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا

یار پاکستان کتنی قربانیوں سے بنا ہے پتہ نہیں کتنے خاندان ذبح ہو گئے نا جانے کتنی ماؤں کی گودیں اجڑ گئی کئی بیٹوں کے سہاگ چھن گئے کتنی ہی بیٹیوں کی عصمتیں لٹ گئی یہ دھرتی کئی جوانوں کا گرم گرم خون اپنے اندر سمو چکی ہے تب جا کر ہمیں ایک آزاد ریاست ملی جس میں ہم اپنی مرضی سے جی سکیں اپنی مرضی سے عبادت کر سکیں
پتہ نہیں کس کی نظر کھا گئی ہے میرے وطن کو ؟
ہر کوئی پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے ہر ایک کی بری نظریں پاکستان پر آ کر ٹکی ہوئی ہیں 
کیپٹن شفیق احمد کے لہجے سے اداسی جھلک رہی تھی

کیپٹن صاحب پاکستان زندہ تھا پاکستان زندہ باد ہے اور ان شاءاللہ پاکستان قیامت تک زندہ باد رہے گا لیکن اس پاک دھرتی کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا نشان تک نا رہے گا پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے کی ہم آنکھیں پھوڑ دیں ان شاءاللہ
یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اس کے وجود کو ختم کرنے کا سوچنے والے اپنی ادھوری خواہشات کو لیے ختم ہو جائیں گے اور ایسی قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے جو شہادت کا شوق دل میں لیے جوان ہوتے ہیں اور ہر دعا میں اللہ رب العزت سے شہادت کی دعا کرتے ہیں
کیپٹن عدنان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا 
_____________________________________
آج 23 مارچ تھی عمیر احمد ابھی ابھی سکول سے گھر پہنچا تھا آج وہ بہت خوش تھا کیونکہ اس نے تقریری مقابلے میں ٹرافی جیت کر آیا تھا
دروازے پر دستک ہوئی

عمیر بیٹا جاؤ جا کر دیکھو دروازے پر کون ہے ؟
اس کی ماں نے کچن میں کھڑے کھڑے آواز لگائی تو وہ بھاگتا ہوا گیا اور دروازہ کھولا
سامنے فوجی وردی میں ملبوس کوئی فوجی آفسر کھڑا تھا جیتی ہوئی ٹرافی ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی

عمیر احمد ؟
اس فوجی آفسر نے اسے کے سامنے بیٹھے ہوئے اس کے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر تصدیق چاہی

ہاں انکل میں عمیر احمد ہوں آپ میرے پاپا کے دوست ہیں نا ؟
عمیر نے مسکراتے ہوئے سوال کیا

ہاں میں آپ کے پاپا کا دوست ہوں کیپٹن عدنان
کیپٹن عدنان نے زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا

پاپا کہاں ہیں وہ نہیں آئے ؟
عمیر نے دروازے سے باہر گلی میں جھانک کر دیکھا

تمہارے پاپا ہمارے ساتھ ہی آئے ہیں 
کیپٹن عدنان نے دھمیے سے لہجے میں جواب دیا

تو پھر کدھر ہیں نظر کیوں نہیں آ رہے ؟
یہ دیکھیں میں نے ٹرافی بھی جیتی ہے اب مجھے اپنے پاپا سے انعام بھی لینا ہے
عمیر نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوال کیا کپیٹن عدنان نے ایک گہرا سانس لیا

بیٹا آپ کے پاپا اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے قربان ہوگئے ہیں کچھ برے لوگوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں جو ان پر فرض تھا انہوں نے ادا کر دیا تمہارے پاپا بہت بہادر انسان تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی ان کے نقش قدم پر چلے
بیٹا ہماری لڑائی ایک ایسے دشمن سے ہے جو بزدلوں کی طرح چھپ کر وار کرتا ہے بہت کم ظرف دشمن ہے
کیپٹن عدنان بظاہر تو مسکرا رہا تھا اس کا دل رو رہا تھا ایک نو یا دس سال کے بچے کو اس کے باپ کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے وہ بڑے کرب سے گزر رہا تھا

کیا میرے پاپا شہید ہوگئے ہیں؟
اس ننھے فرشتے نے اداسی سے پوچھا

ہاں آپ کے پاپا شہید ہوگئے ہیں اور پوری قوم کو ان پر فخر ہے وہ جواں مردی سے لڑے
کپیٹن عدنان نے سر کو اثبات میں ہلایا

میری ٹیچر کہتی ہیں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں اور شہیدوں کےلیے آنسو نہیں بہائے جاتے
لیکن اس کے ساتھ ہی عمیر کی آنکھوں سے آنسوؤں کے گرم گرم قطرے نکل کر کیپٹن عدنان کے ہاتھوں پر گرنے لگے کیپٹن عدنان نے جلدی سے اس کو اپنے سینے سے چمٹا لیا

ہاں تمہاری ٹیچر بلکل سہی کہتی ہے لیکن تم تو رو رہے ہو ؟
کیپٹن عدنان نے اس کو سینے سے لگائے ہوئے پوچھا

پتہ نہیں انکل یہ آنسو زبردستی کر رہے ہیں میرے ساتھ نا چاہتے ہوئے بھی بہتے چلے جا رہے ہیں میں اپنے پاپا کو بہت مس کروں گا انکل
عمیر احمد نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا
کپیٹن عدنان جو بڑے بڑے محاذوں پر ڈٹ کر لڑا تھا ایک بچے کی باتیں سن کر اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا اور یہاں وہ کمزور پڑ رہا تھا

تھوڑی دیر بعد پورا گاؤں پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا تھا 

شفیق احمد کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا تھا سبز ہلالی پرچم میں لپٹی میت کو جب عمیر احمد کے سامنے لا کر رکھا گیا تو اس نے بھی باقی فوجیوں کی تلقید کرتے ہوئے فوجی انداز میں پرچم میں لپٹی باپ کی میت کو سلیوٹ کیا

پاپا آپ کو پتہ ہے میں نے آج ٹرافی جیتی ہے یوم پاکستان پر سب سے اچھی تقریر کرنے پر مجھے یہ انعام ملا ہے پاپا جو آپ نے سکھایا تھا میں نے وہی بولا تھا
پاپا آپ نے مجھے سیکھایا ہے کہ اپنے ملک کےلیے جان دینا بھی ایک اعزاز ہے
میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کو ناپاک کرنے والوں کو ختم کرنے کےلیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دوں گا پاکستان میں بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف جنگ کروں گا 
چھوٹی چھوٹی معصوم جانوں پر ظلم کرنے والوں کو انکے انجام تک پہنچاؤں گا پاکستان کی طرف میلی نظروں سے دیکھنے والے کی آنکھیں نوچ لوں گا آپ کی امن کےلیے دی گئی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی
اس کا دایاں ہاتھ ابھی تک فوجی انداز میں ماتھے پر تھا 

اور کیپٹن عدنان کی چھاتی فخر سے چوڑی ہوگئی تھی ایسے بیٹے صرف پاکستانی مائیں ہی پیدا کر سکتی ہیں

میں بھی بڑا ہو کر آپ کی طرح ایک فوجی بنوں گا اور اپنے ملک کی خطرے لڑتے ہوئے ایک دن شہید ہو جاؤں گا کیونکہ شہادت ہمارے لیے اعزاز ہے اور میں اس اعزاز سے محروم نہیں رہنا چاہتا
وہاں موجود ہر ایک رشک بھری نظروں سے ننھے عمیر کو دیکھ رہا تھا

جب تک مائیں شفیق احمد اور عمیر احمد جیسے بہادر پیدا کرتی رہیں گی تب تک دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کی طرف بری نظروں سے دیکھ بھی نہیں سکتی

کون ہیں یہ لوگ جو جان دینے سے بھی نہیں ڈرتے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہیں پاکستان پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے یہاں ناپاک لوگوں کے رہنے کےلیے کوئی گنجائش نہیں ہے جن کے بچے بھی شہادت کی تمنا کرتے ہوں ان کو بھلا شکست کون دے سکتا ہے جو موت سے نہیں ڈرتے وہ چھپ کر وار کرنے والے بزدلوں سے کیا ڈریں گے

پاکستان زندہ باد کے نعرے ایک بار پھر فضا میں گونج اٹھے آج پھر ایک بیٹا وطن عزیز پر قربان ہوگیا تھا اور کئی قربان ہونے کےلیے تیار بیٹھے تھے

ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے خاک ہوئے
بھری بہار میں اس طرح اپنا باغ جلا

ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
(ختم شد) 

Muhammad Waseem
About the Author: Muhammad Waseem Read More Articles by Muhammad Waseem: 3 Articles with 3532 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.