ساریکا (ایک ان دیکھا وجود) قسط نمبر ٢

کچھ دیر میں پریشا نی کے عالم میں چلتا رہا اور اللہ سے دعا کرنے لگا " یا اللہ اگر یہ کوئی مشکل ہے تو مجھے اس سے بچا"

کہتے ہے۔۔۔دل سے نکلی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور شاید وہ وقت میری دعا کی قبولیت کا وقت تھا ۔۔۔۔چند لمحوں کے بعد ہر شے میرے سامنے صاف تھی دھند تو تھی مگر اب نہ قبرستان اور نہ ہی اُس کی چھوٹی سی دیوار موجود تھی اور بائیں جانب مجھے اپنا فلیٹ دکھائی دے رہا تھا نیچے پورچ کی لائٹ جل رہی تھی ۔ میرا فلیٹ گروانڈ فلور پر تھا ۔ جس میں ایک رہائشی کمرہ ، کچن اور باتھ شامل تھا ۔ گروانڈ فلور پر ہونے کی وجہ سے گاڑی یا بائیک کھڑی کر نے کی جگہ بھی میسر تھی ۔ مجھے نہ تو بائیک اور نہ گاڑی کی ضرورت تھی ۔پانچ منٹ کی مسافت پر میرا دفتر موجود تھا نہ کوئی رشتے دار اس شہر میں تھا جس سے میں ملنے جاتا ۔ صبح کو دفتر شام کو گھر چھٹی والے دن سارا وقت سو کر گزارنا یا اپنے لیپ ٹاپ پر شطرنج گیم کھیل کر وقت گزارنا مجھے شطرنج کھیلنا بہت پسند تھا کوشش کرتا کہ کوئی نہ کوئی ایسا دوست مل جائے جسے اس گیم کا شوق ہو لیکن افسوس کم لوگ ہوتے ہیں جن کو شطرنج گیم ا چھی لگتی ہے شاید اس میں چالیں بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس گیم میں وقت بھی بہت لگتا ہے ۔ خیر اگلے دن میں تیار ہو کر دفتر کے لیے روانہ ہوا ۔ حسب معمول 5 بجے دفتر سے فلیٹ کی طرف روانہ ہوا ۔ میں اپنے دھیان میں مگن فلیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ قبرستان کی طرف اٹھی مجھے ایک خاتون نظر آئی کالی شلوار قمیض میں ملبوس سیاہ چادر لیے ایک قبر کے پاس کھڑی ، مجھے عجیب سا لگا کہ شام کے وقت خواتین قبرستان کا رخ نہیں کرتی ،شازو ناظر ہی کوئی آ جائے ۔ دن کی اوقات میں بھی خواتین کم ہی قبرستان کا رخ کرتی ہے لیکن اُن کے ساتھ لازمی کوئی نہ کوئی ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے جس قبر پر وہ آئی ہو شاید وہ ہی اُس قبر والےیا والی کی اکلوتی عزیز ہو۔ خیر ایک نظر دیکھ کر میرا دھیان دوبارہ سڑک کی جانب مرکوز ہو گیا ۔ اور میں اپنے فلیٹ کے قریب پہنچ گیا ۔ حسب معمول یہ ہفتہ کام کے معاملے میں خاصا مصروف رہا ۔ ہفتے والے دن کام زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے آفس رکنا پڑا ۔ تقریبا ً نو بجے کام ختم کر کے میں فلیٹ کی جانب روانہ ہوا ۔ جاتے وقت میرے آفس کے دوست جناب رضوان خان بھی میرے ساتھ تھے دھند اپنے عروج پر تھی ۔ رضوان خان کا تعارف میں آپ کو کروا دیتا ہوں واحد آفس میں میرے یہی دوست تھے باقی سب سے سلام کی حد تک یا کام کی حد تک بات چیت تھی لیکن رضوان خان سے کافی گپ شپ تھی ۔ رضوان لاہور ہی کا رہائشی تھا شادی شدہ تین بچوں کا باپ ، اُس ہر وقت گھر جانے کی جلدی ہوتی تھی اور اگر کام کی وجہ سے رُک جانا پڑے تو جناب کو جان کے لالے پڑ جاتے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا تھا ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے دفتر سے نکلے رضوان نے جلدی سے بائیک سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا ۔میں حیرانگی سے اُس کی جانب دیکھتا رہ گیا کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی نہ گپ شپ ، نہ کسی کی برائی کی (مطلب دفتر والوں کی) اتنی جلدی بھائی صاحب کو خیر میں نے سوچا فلیٹ پر پہنچ کر کال کروں گا ۔ حسب معمول جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ چلتے چلتے حسب عادت قبرستان کی طرف نگاہ اُٹھی تو وہ ہی عورت سیاہ لباس ،سیاہ چادر اوڑھے قبرستان میں موجود تھی میرے لیے یہ حیرانگی کی بات تھی کہ رات کے نو بجے اس خاتون کا قبرستان میں کیا کام اسی سوچ میں گم میں آگے کی جانب چل پڑا ،بمشکل میں چار قدم چلا ہوں گا کہ مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے میرا نام لیا ہے مجھے میرے نام سے پکارا ہے پہلے تو میں نے اپنا وہم سمجھا اور قدم بڑھانے لگا دوبارہ مجھے آواز آئی اقبال حسین رک جاؤ میری بات تو سنتے جاؤ آواز میری پشت سے آئی تھی اور آواز بھی مرادنہ نہیں ،نسوانی بہت خوبصورت لہجے میں میرا نام لیا جا رہا تھا ۔ میں نے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ خاتون نظر آئی جس کو میں دو بار قبرستان میں دیکھا تھا ۔ کالی شلوار قمیض اُوپر کالی چادر اُورھے میرے جانب دیکھ رہی تھی ۔ میں نے سوالیہ صورت بنا کر اُس کی جانب دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف اشارہ کیا ۔ کہ کیا تم مجھے بلا رہی ہو ، وہ خاموشی سے کھڑی میرے جانب دیکھ رہی تھی اچانک میرے پشت کی طرف سے دوبارہ آواز آئی اقبال حسین میں تمہیں بلا رہی ہوں اور تم کس کو دیکھے جا رہے ہو میں تیزی سے اپنے پیچھے کی جانب پلٹا تو کوئی بھی مجھے دکھائی نہ دیا واپس پھر اُس عورت کی طرف متوجہ ہوا ،میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی اب اُس جگہ پر کسی عورت کا وجود نہیں تھا ۔ چاروں طرف خاموشی ، سناٹا ، اور پول کی روشنی میں صرف میں کھڑا تھا ۔ میں تیزی سے اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا اور دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتا جا رہا تھا ۔ فلیٹ پہنچ کر اپنے کمرے میں پہنچا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ لیا ۔ یا اللہ ۔۔۔۔یہ کیا ماجرا ہوا ہے میرے ساتھ وہ کون تھی جو میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔آواز دینے والی کون تھی ۔۔۔۔ اگر وہ نہیں تھی تو پھر کون ؟

آگے جاننے کے لیے قسط نمبر 3 کا انتظار کریں ۔ نہایت دلچسپ آپ بیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Faisal Bhatti
About the Author: Faisal Bhatti Read More Articles by Faisal Bhatti: 15 Articles with 12892 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.