تنہائیں رولائیں ناں
پرچھائیاں ستائیں ناں
اُداسیوں کے جُھرمٹ سے
پریشانیاں بھی آئیں ناں
یہ ہو تو سکتا ہے مگر
غم سے نہ ہوں آنکھیں نم
اور دل پہ داغ آئیں کم
جس کی طلب میں بھٹکو
بے طلب ہو جاؤ تم
یہ ہو تو سکتا ہے مگر
ہو اپنا یا ہو غیر کا
جس کسی کا ہو دیار
مل جائے تم کو اُس میں پیار
یہ ہو تو سکتا ہے مگر
یہ ہو نہیں سکتا کبھی
اِس آس اور اُمید پر
سانسیں کر دُوں ساری بسر
یہ ہو تو سکتا ہے مگر