آتے جاتے ہوئے ہر شخص سے پوچھوں تیرا
تجھ کو دیکھ کر مجھے جو ملے اُسے دُعا دوں میں
یارِ من تُو جو ملے سوچ کی ہر حد سے پرے
لگ کے ایک بار گَلے اُسے دُعا دوں میں
اور کچھ دیر ابھی مجھ میں ذرا سانس تو لے
اے زندگی ٹھہر جا زرا اُسے دُعا دوں میں
دشمنِ جاں ہی سہی مگر آج کے دن مسعود
دل چاہے کہ اپنے من سے اُسے دُعا دوں میں