کچھ یادیں پرانی
یوں یاد آگئیں
گزرے جو اک مقام سے
رہے جو بے نام سے
کسی کے انتظار میں
گھومنا ہر بازار میں
پنہا اپنی آنکھوں میں
پیار کی اک جوت جگائے
ہم نے پلٹ کر جو دیکھا
سراب تھا اک ماضی کا
بند کمرے میں تنہا تنہا
آگے پیچھے چینل چینل
شوخ و چنچل اک صدا
گرم گرم وہ پیزا کھانا
ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانا
چکن سلاد کا ڈبہ جب
کھولا تو پائن ایپل تھا
ہنستے ہنستے وہ بھی چکھا
چکھتے چکھتے چٹ کر گئے
گرمی میں جب رات ڈھلے
آئس کریم کا چسکا لینا
کہیں بیٹھ کر چمچ چاٹنے کو
چمن کوئی متحرک ڈھونڈنا
ہر رات کو ڈھلتے چاند میں
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلے
چاکو کوکو کے چسکے
زبان کے چٹخارے لیتے لیتے
جب پلتے ہم بند کمرے میں
خود کو دیکھا تنہا پایا
اشک آنکھ سے لڑھک آیا
یادیں بھی تنہا جھیلیں
زیست بھی ایسے گزرے گی
جیسے تیسے گزرے گی