کرب و بلا
Poet: Taj Rasul Tahir By: Taj Rasul Tahir, Islamabadوہ کرب و بلا تو نے بتا کس طرح دیکھے
قربان ہؤے اہل وفا تجھ پہ پنپ کے
کیا تو نے انھیں دیکھا کہ گنتی میں بہتر
جذبوں کےامیں خوب حسیں خوب جواں تر
اک ایک کہ ایماں کی حرارت سے منور
ہر ایک ہے اخلاص کا ایثار کا پیکر
ان میں سے نہ تھا ایک بھی جانے پہ رضامند
جب ان سے کہا چھوڑ کے جانے کو بھی ہر چند
وہ جاتے بھی کیسے کہ انہیں اتنا یقیں تھا
اس روز پس چشم وہیں خلد بریں تھا
خوشبؤ بہشت چھو کے گزر جاتی تھی انکو
کوثر کی طلب اور ہوا جاتی تھی انکو
ہر چند کہ گھرا تھا انہیں اہل حرب نے
پھر دیکھا فلک نےبھی ترے ساتھ نظارہ
صحرا میں انھیں پیاس کی شدت نے ابھارا
بچے بھی تڑپ اٹھے کئی دن کے پیاسے
ہاں ساقئ کوثر کے نواسے تھے پیاسے
پہرا تھا بڑا سخت جو پانی پہ عدو کا
پی لے کوئ یا قصد کرے تازہ وضو کا
عباس گئے لے کے جو مشکیزہ ذرا سا
تلوار سے ظالم نے اسے چھید دیا تھا
پھر دیکھا کہ کیا ظلم کیا اہل جنوں نے
معصوم کے حلقوم کو چھیدا جو ملعوں نے
وابستگیء دین ہوئ ایک طرف سب
نانا کی نگاہوں کی تڑپ ایک طرف سب
پس بھول گیا پل میں اسے روز جزا کا
بے رحم کو آیا ہی نہیں خوف خدا کا
دولت کی کھنک نے اسے اندھا کیے رکھا
لالچ نے حرص نے اسے اندھا کیے رکھا
فکر و غم عصیاں کا اسے ہوش نہیں تھا
چہرے کی سیاہی کا اسے خوف نہیں تھا
تلوار فقط اسکے حواسوں پہ فشاں تھی
جو سوچ تھی حق کی اسے بار گراں تھی
پس ایک ہدایت تھی معلق سی ہوا میں
کیا قوت ایماں تھی سوا حر کی صدا میں
ایمان کی دولت نے اثر اپنا دکھایا
جب حق کے شہیدوں میں بڑا نام کمایا
حضرت علی اکبر کے کمالات حرب دیکھ
باطل کو مٹانے لگی اک ایک ضرب دیکھ
ہاں دیکھ نبوت کی نشانی کو مچلتے
کیا خوب ادا حیدر کرار کی چلتے
بس چلتا نہیں ان پہ کسی تیغ و تفنگ کا
کیا حشر بپا ہونے کو ہے جوش و ترنگ کا
کب ٹھہرا ہے اور ٹھہرے گا ایمان کے آگے
بہ جائے گا یہ فتنا بھی اسلام کے آگے
یہ حضرت قاسم یہ علی اکبر و اصغر
نزرانہ ء جاں دینے لگے دین مبیں پر
کیا کیا نہ ہوئے لالہ و گل خاک میں ہم رنگ
کربلکی زمیں ھے کہ ردا خون سے ہم رنگ
کس درجہ کٹھن وقت ہے کیسی یہ گھڑی ہے
اسلام کی اس وقت بقا پہلی کڑی ہے
ہیں لاشے جدھر دیکھو جگر گوشے نبی کے
اکاآہ نہیں پھر بھی لب آل نبی پہ
اک جوش ہے اسلام کی حرمت کا بقا کا
اب خوف نہیں ان کو کسی کرب و بلا کا
شمشیر بکف لشکر ظلمت پہ جھپٹنا
اک آنکھ جھپکنے میں کئی صف کا الٹنا
پھر تیروں کی برسات میں اک لمحہ وہ آیا
سب ارض و سما کانپ گئے دیکھ کے کایا
اب جسم حسین ابن علی تیروں سے پر ہے
یہ مرد خدا جذبہ ایثار سے پر ہے
سر اپنا جھکایا تو فقط سجدے کی خاطر
اب حق عبادت کو ادا کرنے کی خاطر
بڑھتا ہے شمر دیکھ کے یہ وقت غنیمت
اب پھیل چکی گویا ہے ہر سمت میں ظلمت
وہ کاٹ کے سر حضرت حسین کا بھاگا
قرآن کو نیزے پہ اٹھائے ہوئے بھاگا
اب دیکھیے بد بخت کو بھاگے جو خدا سے
لیکن لئے قرآن کو سر اپنے اٹھا کے
اب دیکھو ذرا حوصلہ اس آہ و فغاں میں
ہیں زینب و صغرا بھی بڑے کرب نہاں میں
خاموش نگاہیں ہیں فلک چھو کے پلٹتیں
لیکن نہیں تقدیر سے شکوہ کبھی کرتیں
پلکوں سے گرے دردکے بن جاتے ہیں موتی
سب چن کے ملک عرش پہ لے جاتے ہیں موتی
کیا رہ گیا دنیا پہ بجز ظلم یزیدی
کٹ پائی ہی اسلام پہ سب آل نبی کی
اسلام تو اب بھی ہے جواں زندہ و جاوید
مٹتا ہے تو بس ظلم وہ ظالم وہ حوص خیز
جب آئے تو تھے اسکے لوٹے تو اسی کے
طاہر یہ سبھی رنگ اسی کے ہیں اسی کے
جب لفظ ساتھ چھوڑ جائیں
جب آنکھ فقط نمی بولے
جب لب خالی رہ جائیں
کیا صرف سجدہ کافی ہے؟
کیا تُو سنے گا وہ آواز
جو کبھی ہونٹوں تک نہ آئی؟
جو دل میں گونجتی رہی
خاموشی میں، بے صدا؟
میرے سجدے میں شور نہیں ہے
صرف ایک لرزتا سکوت ہے
میری دعا عربی نہیں
صرف آنسوؤں کا ترجمہ ہے
میری تسبیح میں گنتی نہیں
صرف تڑپ ہے، فقط طلب
اے وہ جو دلوں کے رازوں کا راز ہے
میں مانگتا نہیں
فقط جھکتا ہوں
جو چاہا، چھن گیا
جو مانگا، بکھر گیا
پر تُو وہ ہے
جو بکھرے کو سنوار دے
اور چھن جانے کو لوٹا دے
تو سن لے
میری خاموشی کو
میری نگاہوں کی زبان کو
میرے خالی ہاتھوں کو
اپنی رحمت کا لمس عطا کر
کہ میں فقط دعاؤں کا طالب ہوں
اور وہ بھی بس تیرے در سے
سخاوت عثمان اور علی کی شجاعت مانگ رہے ہیں
بے چین لوگ سکون دل کی خاطر
قرآن جیسی دولت مانگ رہے ہیں
بجھے دل ہیں اشک بار آ نکھیں
درِ مصطفیٰ سے شفاعت مانگ رہے ہیں
سرتاپا لتھڑے ہیں گناہوں میں
وہی عاصی رب سے رحمت مانگ رہے ہیں
رخصت ہوئی دل سے دنیا کی رنگینیاں
اب سجدوں میں صرف عاقبت مانگ رہے ہیں
بھٹکے ہوئے قافلے عمر بھر
تیری بارگاہ سے ہدایت مانگ رہے ہیں
بروز محشر فرمائیں گے آقا یارب
یہ گنہگار تجھ سے مغفرت مانگ رہے ہیں
آنکھوں میں اشک ہیں ، لبوں پر دعا ہے
جنت میں داخلے کی اجازت مانگ رہے ہیں
ہر دور کے مومن اس جہاں میں سائر
اصحاب محمدجیسی قسمت مانگ رہے ہیں
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی
تو بے نیاز ہے تیرا جہاں یہ سارا ہے
ترے حضور جھکی جب جھکی ہے پیشانی
ترا کٰا ہی سجدوں میں جلوہ فرما ہے
تو آب و خاک میں آتش میں باد میں ہر سو
تو عرش و فرش کے مابین خود ہے تنہا ہے
تری صفات تری ذات کیا بیاں کیجئے
تو اے جہاں کے مالک جہاں میں یکتا ہے
تجھی سے نظم دو عالم ہے یہ کرم تیرا
تو کائینا کا خالق ہے رب ہے مولا ہے
تو ہر مقام پہ موجود ہر جگہ حاضر
تو لامکاں بھی ہے ہر اک مقام تیرا ہے
مرا بیان ہے کوتاہ تیری شان عظیم
ثناہ و حمد سے وشمہ زبان گویا ہے
Jab Khamosh Tha Rab Magar Ab Inteha Ho Gayi Thi
Waqt Ke Saath Yeh Zulm Barhne Laga Tha
Har Ek Bacha Khuda Ke Aage Ro Raha Tha
Tum Itne Jaahil The Ke Bachon Ki Aah Na Sun Sake
Yeh Khwahishen Yeh Baatein Yeh Minatein Na Sun Sake
Yun Roti Tarapti Jaanon Pe Tars Na Kha Sake Tum
Woh Maaon Ke Sapne Tod Ke Hanste Rahe Tum
Woh Masoomon Ki Duaein Rad Nahin Gayin
Woh Pyaaron Ki Aahen Farsh Se Arsh Pohanch Gayin
Phir Ek Jhalak Mein Teri Bastiyan Bikhar Gayin
Aag Yun Phaili Ke Shehar Tabah Aur Imaratein Jal Gayin
Phir Tumhare Barf Ke Shehar Aag Mein Lipat Gaye
Barf Se Aag Tak Safar Mein Tum Khaak Mein Mil Gaye
Tum Samajhte The Tum Badshah Ban Gaye
Tumhare Ghuroor Phir Aag Se Khaak Ban Gaye
Tum Unko Beghar Karte The Na Karte Reh Gaye
Aag Aisi Jhalki Ke Tum Be-Watan Ho Kar Reh Gaye
Aye Zaalim! Tum Chale The Bare Khuda Banne
Aur Tum Tamaam Jahano Ke Liye Ibrat Ban Ke Reh Gaye
روا ں ذ کرِ ا لہ سے بھی زبا ں کو رب روا ں رکھتا
جہا ں میں جو عیا ں پنہا ں روا ں سب کو ا لہ کرتا
مسلما نوں کے د ل کے بھی ا یما ں کو رب روا ں رکھتا
پکا را مشکلو ں میں جب بھی رب کو کسی د م بھی
ا ما ں مشکل سے د ی ، پھر ا س ا ما ں کو رب روا ں رکھتا
میرا رب پہلے بھی ، باقی بھی ، رب ظاہر بھی ، با طن بھی
جہا ں میں ذ کرِ پنہا ں عیا ں کو رب روا ں رکھتا
مُعِز بھی رب، مُذِ ل بھی رب ، حَکَم بھی رب ، صَمَد بھی رب
ثناءِ رب جہا ں ہو ، اُ س مکا ں کو رب روا ں رکھتا
بقا کچھ نہیں جہا ں میں خا کؔ ، سد ا رہے گا خدا اپنا
پوجا رب کی کریں ، جو ہر سما ں کو رب روا ں رکھتا






