ڈگمگائے رہتے ہیں پھسل جاتے ہیں
جو استاد شاگردی سے نکل جاتے ہیں
ٹوٹے پتوں کو ھوا لے اڑتی ھے
کمزور پودوں کو جانور نگل جاتے ہیں
جس شاخ میں ھو پھل وہ جھک جاتی ھے
بے ثمر شجر کٹتے ہیں جل جاتے ہیں
موجیں دریا میں تسلسل سے بہتی ہیں
دانے تسبیح میں سنبھل جاتے ہیں
قبر حشر جب نظروں سے اوجھل ھو
عوض ایمان کے دنیاں پہ بہل جاتے ہیں
حق کو حق جان کر جو انجان رہتے ہیں
وہ دنیاں سے مثل ابو جہل جاتے ہیں
اھل بدر کو فضیلت ھے تمام غزؤں پر
انمول بنتے ہیں جو کر پھل جاتے ہیں
اسکےدینےمیں کب کمی ھے تو اسطرح مانگ کر دیکھ
جسطرح بچے قدموں میں مچل جاتے ہیں
فکر اولاد میں کیوں ھوتے ھو پریشاں اخلاق
جنکا کوئی نہں ھوتا وہ بھی تو پل جاتے ہیں
اصل مقصود تجھ سے دیں کی جھدوطلب ھے
فیض جسکے پہنچ نسل در نسل جاتے ہیں