Add Poetry

نویدِ سحر

Poet: Ahsan Mirza By: Ahsan Mirza, Karachi

اک تنہا بوڑھی مائی نے
دیکھا جو چند جوانوں کو
اس کے مردہ چہرے پر
خوشیوں کی بہاریں چھاتی گئی
وہ خوش تھی کہ اب بھی ہے کہیں
کچھ آس امید بچ جانے کی
ذلت سے جان چھڑانے کی
یہ طالب ہے بہتر دنیا کے
یہ دور کریں گے ظلم و ستم
یہ عالم ہیں اس دھرتی کے
یہ توڑے گے غفلت کے صنم
یہ علم کے دیپ جلائے گے
اشجارِ شعور لگائے گے
اس پاک وطن کی مٹی سے
ایوان نئے بنائے گے
پھر میری ارضی بھی ہوگی
میں اپنا بھی غم کہہ دوں گی
یہ پوچھے گے کیسی ہو ماں؟
میں ماضیءِ بےکس کھولوں گی
میں کہہ دوں گی میرا بھی اک
جوان سہارا ہوتا تھا
ہر شب کا سہارا لیکر وہ
نویدِ سحر کو روتا تھا
وہ مارا گیا، نہلایا گیا
اس خون میں جو امانت تھا
اس ملت کے مستقبل کی
روشن اک ضمانت تھا
پر تم جو ہو تو سب کچھ ہے
تم سب کا سہارا بن جاؤ
بےباکی سے، حق گوئی کو
ظالم کے آگے تن جاؤ

Rate it:
Views: 310
17 Jul, 2011
Related Tags on Life Poetry
Load More Tags
More Life Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets