اک کچھی کلی جو کھل سی گئی
مخمور ہوا میں جھول گئی
عجب نرالہ رنگ تھا اس کا
دیوانا بناسب گلشن اس کا
وہ ننھی کلی جو پھوٹ گئی تھی
ہر سوں خوشیاں بانٹ رہی تھی
پھر یوں ہوا اک بنھورا اس پر
اپنی آنکھ جما بیٹھا
وہ پگلی جو نادان بہت تھی
ہر غم سے انجان بہت تھی
وہ اس کے ساتھ ہو چلی۔
رنگیں نظارے دیکھائے تھے
ہر سوں پیارکے دیپ جلائے تھے
اک الگ ہی دنیا دکھلائی تھی
پھر شام ڈھلی
پھرشام ڈھلی اور رات کے جگنو آئے جب
وہ بھنور جانے کدھر گیا
اور ننھی کلی مرجھا سی گئی
اک رات کا جگنو پاس تو تھا
جو دیکھ کر اس کوجیتا تھا
ہر پل اس پرمرتا تھا
اک آس لئے ہی بیٹھا تھا
اے کاش کہ پھر سے کھل جائے
وہ ننھی پھر روشن ہو جائے۔