اے میری عمرِ رواں
تیرے ساتھ چلوں میں کس طرح
تو ہے اپنے راستے پہ گامزن
میں ہو اپنی فکروں میں موجزن
تو گزرتی ہے اپنی چال سے
میں رُکا ہو ں اپنے خیال
تو نہ دیکھے مڑ کے کبھی کہیں
میں تھا کل جہاں وہیں آج بھی
توچلے ہیں کارواں کے سنگ سنگ
میری زندگی کے الگ ہیں رنگ
تیرے ساز سار ے ہیں مختلف
میری نغموں کی ہے الگ ترنگ
نہ رُکی ہے تو نہ رکے گی تو
نئی منزلیں تیرے چہار سُو
تیرا اختتام ہے حیات نو
یہی تیرا سب کو پیام ہے