غیروں سے حالت میخانہ چھپائے رکھنا
فرض رندوں کا ہے ماحول بنائے رکھنا
تیز طوفان ہے منجھدھار ہے گہرا پا نی
اپنی نیا کو تھپیڑوں سے بچائے ر کھنا
لوٹ کے آؤں تو راہوں میں اندھیرا نہ ملے
میری الفت کے چراغوں کو جلا ئے رکھنا
ہم نے دولت سے بنایا ہے جو چاندی کا محل
لوگ کہتے ہیں کہ نام اس کا سرائے رکھنا
ٹیس اٹھتی ہے تو پھر اشک نکل جاتے ہیں
اتنا آساں نہیں زخموں کو چھپائے رکھنا
دوریاں سایہ دشمن سے ضروری ہیں مگر
فاصلہ اہل کرم سے بھی بنا ئے رکھنا
ہم نے سیکھا ہے مقدر کے فقیروں سے حسن
اپنے جذبات کو سینے میں دبائے رکھنا