ہر اچھی بات میں میکے کی مثال دیتی ہے
ہر گند کا الزام سسرال پہ ڈال دیتی ہے
اپنی ہر فرمائش جوتے کے زور پہ منوائے
ہم کچھ کہیں تو ہس کے ٹال دیتی ہے
کیا مجال میری جو مزاجِ یار کے خلاف بولوں
کہ القابات بھی وہ چن کے کمال دیتی ہے
القابات جو کم پڑ جائیں تو نہ پوچھو یارو
دو چار جوتے بھی پھر وہ نال دیتی ہے
دے کے جاتا ہوں پیسے مرغِ مصلم کے
گھر لوٹتا ہوں تو چھو لو کی دال دیتی ہے
کبھی سر تال ہوتے تھے ہماری روح کی غذا
اب بیگم کی کھپ کھپ جان گال دیتی ہے
پوچھ بیٹھوں جو غلطی سے کوئی بات اس سے
آگے سے تو کر وہ لاکھوں سوال دیتی ہے
مہماں ہواگر سسرال سے تو سر باندھ لیتی ہے
ہو میکے سے تو پھر اتارمیری بھی کھال دیتی ہے
سٹار پلس سے سیکھی ہیں کیا خوب مہارتیں
ہر بات میں چل کوئی نہ کوئی چال دیتی ہے
سن لے یا رب ہن تے فریاداں میریاں
تیری ذات مصیبت سے سب کونکال دیتی ہے
جہاں کوئی مطلب کی چیز نظر آتی ہے یاسر
خود غرض دنیا وہاں ڈال اپنا جال دیتی ہے