Add Poetry

مسلماں کا مطلب ہی نہ سمجھے مسلماں اب تک

Poet: purki By: m.hassan, karachi

مسلماں کا مطلب ہی نہ سمجھےمسلماں اب تک
جولفظ مسلماں کو نہ سمجھے تو قرآں کیا سمجھے

جو سمجھنا چاہتے ہی نہیں اسکا علاج دنیا میں نہیں
جو سمجھنا ہی نہ چاہے تواس کو خدا ہی سمجھے

لکم دینکم ولی یدین قرآن کا فرماں ہے
جو یہاں نہ سمجھ سکے وہ وہاں سمجھے

پیروی آل رسول کیا ہیں جو سمجھے
دنیا بھی سمجھےوہ آخرت بھی سمجھے

بدنصیب انساں ہے وہ جواسلام کو نہ سمجھے
اس سے بڑھ کر وہ جو رسول کو بھی نہ سمجھے

کتنا مشکل مرحلہ ہے قاتل کوبھی شربت کا پلانا
وقت رحلت قاتل کے لئے مولا علی کی وصیت ہی سمجھے

نظر دوڑاؤ اگر تم زولعشیرہ سے فتح مکہ تک
کوئی سمجھے نہ سمجھے محمد کو علی تو سمجھے

مسلماں آج جو در بدر ہیں تو صرف تفرقہ کی باعث
یونٹی کو کافر تو سمجھے مگر مسلماں نہ سمجھے

وعتصمو بحبل اللہ ولا تفرقو کہکرسب کو سمجھایا
ساری دنیا تو سمجھے مگرمسلماں اب بھی نہ سمجھے

قرآں اتاراہے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کےخاطر
ہم نے آج تک سوچا ہی نہیں ٹھیک سے کہ اسکو سمجھے

نہ سوچنے نہ سمجھنے کا نیتجہ سب نے دیکھا
ہم غلامی کے طوق پہن کر جی رہے ہیں آخر کیا سمجھے

قرآن کا یہ حکم ہے کہ پڑھ پڑھ پڑھ اور صرف پڑھ
ہم ہی قرآن کو نہ سمجھے باقی سارا زمانہ سمجھے

مسجد و محراب علم کا مرکز ہیں ہی
انھیں اگر یونیورسٹی میں بدل دیں توقوم بہتر سمجھے

اپنے ارد گرد سے ایسوں کو قیادت سونپے
جو قوم سے مخلص ہوں اور اسلام کو بھی سمجھے

قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس دور کے جاہل ملا کیا سمجھے

مسجدیں ہوگئ ہیں ویراں آج کل کیوں؟
کبھی غور فرمایا آپ نے منیجمنٹ سمجھے

پھول جیسے بچوں کے چہروں پر وہ رونق کہاں آجکل
مرجھا رہے ہیں وقت سے پہلے معاشرہ ہی سمجھے

عبادت خانوں کی رونق ہمیشہ لوگوں کے دم سے ہے
اللہ کی بنائی ہوئی جنت میں جانا ہے تو بچوں کو سمجھے

اللہ کی نگاہ میں انسان کی جوعظمت ہے پرکی تم کیا جانے
جنت میں جانے کی تمنا ہے تجھے تودنیا کو بھی تو جنت سمجھے

علم کا دروازہ اور اپنے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا
ایسوں کو خدا ہی نوازتا ہے حسن تم کیا سمجھے

 

Rate it:
Views: 348
03 Jun, 2012
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets