جسم سے نکل کر تھوڑی سی زندگی چاہیے
میرے وجود کو جیون کو کچھ تو آزاد ہونے دو
عزت و وراثت نہ ہی شے ہوں کسی کی کوئی
مجھے بھی سانس لینے دو دنیا میں آباد ہونے دو
تخلیق کا موجد رب ،مقام ملے اسے خدائی کا
باعث تخلیق ہوں مجھ پر، اب اجتہاد ہونے دو
محور فساد میں تھی ! نہ ہو ہی سکتی ہوں
میں ناشاد ہوں تو جہاں کو بھی ناشاد ہونے دو
جلتے ہوئے چہرے، کہیں لٹتی ہوئی عصمت
فقط جنس کے باعث نہ عورت برباد ہونے دو