حسین ہے تری ہر اک ادا نرالی ہے
اے پیاری بیوی تو کتنی ہی بھولی بھالی ہے
تو بھولی بھالی سی رکھتی ہے مجھ پہ پوری نظر
میں سوچتا ہوں کہاں سے جاسوسہ پا لی ہے
مجھے تو لگتا ہے شوہر نہیں میں نوکر ہوں
مزاج رہتا ترا رات دن جلالی ہے
تمھارے ابا میاں اور اماں ہیں اچھے
زباں کی سخت فقط میری چھوٹی سالی ہے
جو پوچھو کھانا پکایا ہے آج کیا تم نے
جواب دیتی ہو بس چائے کی پیالی ہے
اے بھولی بھالی نہ کرنا کوئی بھی فرمائش
کہ میرے پیٹ کی طرح سے جیب خالی ہے
مطالبہ ہے ترا تجھ کو بس گھماتا رہوں
مطالبوں نے ترے میری جان کھا لی ہے
تو مجھ سے یوں ہی خفا ہو گئی اے جان وفا
نئی یہ بیوی نہیں میں نے بلی پالی ہے
کسی کو کیا ہے پتا کتنا مجھ سے لڑتی ہے
سبھی سمجھتے ہیں جوڑی بڑی مثالی ہے
میں دے تو دیتا ہون تنخواہ ساری ہی تم کو
تو پھر بھی کیوں تری رہتی نظر سوالی ہے
یہ سائیں سائیں مرا پرس کر رہا ہے جو آج
رقم تو تو نے ہی لگتا ہے سب نکالی ہے
میں تیرے حسن کا کرتا ہوں اعتراف مگر
ہے دیکھنے میں ہی گوری تو دل کی کالی ہے
اب اور کہتا نہیں تجھ کو جان من کچھ بھی
کہ میری باتوں سے صورت بری بنا لی ہے
کہا ہے جو بھی اسے بھول جا اے جان قرار
کہ گھر میں آج میری ساس آنے والی ہے