( مولوی اسماعیل میرٹھی سے معذرت کے ساتھ)
ایک لڑکا بگھارتا ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
ایک دِن تھا کہ سورہا تھا تُو
وقت کو یوں ہی کھو رہا تھا تُو
گھر تِرا تھا سکوں کا گہوارہ
اور تھا یہ گھر تجھے بہت پیارا
چائے پی پی کے تُو تھا لہراتا
دھوپ لیتا کبھی ہوا کھاتا
ایک امّاں تھی مہربان ترِی
دِل سے کھا نا تجھے کھِلاتی تھی
یوں تو گھر میں سبھی تھے، ماں باوا
تجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا
جب کیا تجھ کو پال پوس بڑا
کوئی تجھ پر کچھ ایسے آن پڑا
گئی تقدیر یک بیک جو پلٹ
زندگانی کو کردیا تلپٹ
یک بیک طے ہوئی ترِی شادی
ترِی دلہن تھی یاکہ شہزادی
ہوگئی دَم کے دَم میں بربادی
چھِن گئی ھائے تیری آزادی
ایک ظالِم سے یوں پڑا پالا
جِس نے کولہو میں ہے تجھے ڈالا
کیا کہوں میں کہاں کہاں کھینچا
جیسے منڈی میں تجھ کو جا بیچا
پہلی تاریخ کو کمال کیا
تیری تنخواہ کو حلال کیا
نہ سنی تیری آہ اور زاری
خوب بیوی نے کی خریداری
پھر مقدر تجھے جو گھر لایا
اُس نے یاں اور بھی غضب ڈھایا
دھکّے دے کر کچن میں بھیج دیا
کام سارا ترے سپرد کیا
بولی امّاں سے، اے مرِی اماں!
یاں پہ بیٹھو ذرا، چلی ہو کہاں
کام کچھ بھی نہ اب کرو گی تُم
تھک چکی ہو تو سو رہو گی تُم
ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب
کی شکایت ، تو جی جلایا خوب
ہاتھ دھوکر پڑی تھی پیچھے یوں
تجھ کو کرنا تھا یوں ہی خوار و زبوں
تُو نے رو کر طلب کیا انصاف
ھائے بیگم ، مِرا قصور معاف
کہا لڑکے نے میری پیاری دال
تجھ کو معلوم ہے مِرا سب حال
وہ تو رتبہ مِرا بڑھاتی ہے
جو پکاتا ہوں میں ، وہ کھاتی ہے
نہ ستانا ، نہ جی جلانا تھا
یوں مجھے آدمی بنانا تھا