شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دہر میں آہ بے کساں کے سوا
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں