زندگی یوں ہی گزرتی جائے گی
برف کی مانند پگھلتی جائے گی
سوچ کر حیراں کبھی ہوتا ہوں میں
اِتنی بھی دنیا بدلتی جائے گی
عیش میں ڈوبا ہے کوئی اور کسی کی
بھوک سے بس جاں نکلتی جائے گی
کوئی تو اپنے میں ہے اتنا مگن
کیوں نظر مضطر پہ پڑتی جائے گی
دل کی کشتی میں جو پانی آجائے
آخرت اپنی اجڑتی جائے گی
آہ سے مظلوم کی بچنا ہی ہے
ورنہ حالت ہی بگڑتی جائے گی
جو گناہوں سے پشیماں ہوتے ہیں
اُن کی کایا ہی پلٹتی جائے گی
اُن کے ہی تو فضل سے اِس دور میں
اپنی نیّا پار لگتی جائے گی
اثر کو بس ہر گھڑی دنیا میں ہی
فکرِ عقبیٰ ہی ستاتی جائے گی