دکھ شمار کریں تو سانس اکھڑ جاتی ہے
خوابوں کو راکھ کریں تو بستی اجڑ جاتی ہے
وہ جو احساس تھا ہتھیلی پے سجا رکھا ہے
کٹ جائیں ہاتھ تو قسمت بھی بدل جاتی ہے
ایسی وحشت ہے کہ جسکا کوئی مداوا ہی نہں
معجزے کی آس پے ہر شام گزر جاتی ہے
اجاڑے شہر اور گلیوں میں کیا ماتم برپا
کیا ہے اب انکی سزا منصف پے نظر جاتی ہے
جلتے ارمانوں کو دیواروں پے سجا رکھا ہے
دھوپ کی شدت سے میری جان بھی جل جاتی ہے
ناں جلاؤ شمع کو اور پھول بھی مت لاؤ
روشنی آنکھ میں آے تو پگھل جاتی ہے
مانگ میں راکھ ہے تو آنچل کو لگا چاند گرہن
رات کی سیاھی اسے اور بھی ویراں کر جاتی ہے