دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ‘ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل؟
انسان ہوں‘ پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں!
یا رب! زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں‘ عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں‘ کافر نہیں ہوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمّرد و زَر و گوہر نہیں ہوں میں
رکھتے ہو تم قدم میری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبہ میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟
غالبؔ! وظیفہ خوار ہو‘ دو شاہ کو دعا
وہ دن تھے کہ کہتے تھے: ’’ نوکر نہیں ہوں میں‘‘