خد کا آستاں بھی یار فلحال تو اجنبی ہے
یوں آ کے ایک ضربِ قحط دل پے لگی ہے
سبھی عالم اس میں ہیں ٹھہرے ہوے
وہ ایک شخص ہی تو اپنی زندگی ہے
یوں بات بات پے نہیں ہوتیں آنکھیں نم
میرے محبوب کچھ تو رقابت اب بھی ہے
گنوا دیئے میں نے جب سبھی ہمدرد اپنے
اے حسرتِ نرگسی تُو کہاں آکے ملی ہے
سرِ ہجوم ایک رؤ میں ہوں کھویا ہوا
یہ صورت کہیں دیکھی ہوئی لگتی ہے
کسی کا یوم جل گیا کسی کی آنکھ میں
کسی کے دل میں کسی کی رات جلی ہے
ہر طور سے الزام ہے دل پے تیری تصویر
ایک مدت تو اس سایہِ دیوار میں چلی ہے
ذعرِ ہجر سے کیوں کریں اظہار احسن
ایک طرح کی یہ بھی تو یار بزدلی ہے