اپنا رونا تو بہت خوب رویا تو نے
سچ کو جھوٹ کے دریا میں ڈبویا تو نے
اپنے دامن پہ لگا داغ نہ دھویا تو نے
تھا بھرم تیرا جو باقی وہ بھی کھویا تو نے
ہے جو ہمت تو حقائق بھری روداد بھی سن
بے بس و بےکس و مجبور کی فریاد بھی سن
تھی وہ منحوس گھڑی جب تیرا رشتہ آیا
تیری بہنوں نے تجھے شیخ عرب بتلایا
آکے دیکھا تو یہاں کچھ بھی نہ گھر میں پایا
خواب سب ٹوٹ گئے چھا گیا غم کا سایا
دل پہ جو بیت رہی ہے وہ بتاؤں کیسے
روح کے زخم بتا تجھ کو دکھاؤں کیسے
کتنے ارمان لئے گھر میں تیرے آئی تھی
میرے اخلاص میں دریاؤں کی گہرائی تھی
سازوسامان کا انبار ساتھ لائی تھی
بول کیا چیز تھی جو تو نے نہیں پائی تھی
پھر بھی اب تیری نظر مجھ سے خفا رہتی ہے
یعنی آمادہ صد جو رو جفا رہتی ہے
بے شرم یہ تو بتا زچہ بنایا کس نے
پھول پر پھول لگا تار کھلایا کس نے
مرمری جسم کو دن رات ستایا کس نے
دائمی روگ میری جان کو لگایا کس نے
کوئی گورا کوئی کالا کوئی کانا کوئی کانی
سب تیرے ذوق ہوس کی ہے یہ کارستانی
تیری اماں نے کبھی اپنا نہ سمجھا مجھ کو
تیری بہنوں نے ہمیشہ کیا رسوا مجھ کو
اور تو نے بھی کبھی دل سے نہ چاہا مجھ کو
سب نے مل مل کے صبح شام ہی کوسا مجھ کو
اس جہنم میں تیری کیا نہ سہا ہے میں نے
جان پہ کھیل گئی اف نہ کہا ہے میں نے
مجھ سے یہ شکوہ کہ میں تیری وفادار نہیں
تجھ سے رغبت نہیں الفت نہیں اور پیار نہیں
تیری خدمت سے ہرگز مجھے انکار نہیں
تو جفاکش ہے تیرا کوئی کردار نہیں
میرا اللہ تجھے نیک ہدایت دیدے
عقل دے شرم دے تھوڑی سی شرافت دیدے