تیرے لہجے کی تلخی کو
چھپا کر ساری دنیا سے
میں جب تھک ہار کہ بیٹھی
رقم کرنے کو کاغذ پہ
قلم چل ہی نہیں پایا
عجب سی کپکپاہٹ نے
میرے ہاتھوں کو لرزایا
تیری باتوں کی یادوں میں
بہت گُم صُم سی ہو بیٹھی
ذرا سی دیر میں گویا
توازن اپنا کھو بیٹھی
اِسی اک سوچ میں گُم تھی
کہ جب سبھی احساس مردہ تھے
تو پھر نجانے کیوں ؟؟
تیرے لفظوں کے تیروں نے
مجھے گھاؤ دیئے گہرے
اور اب کے حال ایسا ہے
ڈھلے گی عمر یہ یونہی
بھریں گے زخم بھی شاید
مگر معلوم ہے مجھ کو
تیرے لہجے کی زَد سے نکلنے کو
میری یہ عمر تھوڑی ہے