تیرے آنچل کے ساۓ میں گزار دیا سارا جیون
اب سورج کی روشنی آنکھوں میں چھبنے لگی ہے ماں
یہ کن دُکھوں کن تکلیفوں کے حوالے کر گئی ہو
اب تو تیرے بنا میری رُوح تڑپنے لگی ہے ماں
تُو نے تو سجاۓ کتنے سپنے میرے مستقبل کے
پھر کیوں سب اُدھورے چھوڑ کر تُو جانے لگی ہے ماں
تجھے پتہ تھا تیرے سوا کوئی نہیں ہے میرا یہاں
پھر کس کے سہارے چھوڑ کر تو یوں چھپنے لگی ماں
کیسے گُزاروں گا اپنی زندگی کے باقی دن مسعود
تیرے بنا ابھی سے میری سانس رُکنے لگی ہے ماں