تُو شریکِ سفر ہُوا نہ مگر
تیری خوشبو ہے ہمسفر میری
ذِکر تیرا ہے رُوح میں رقصاں
تجھ کو مانگے ہے چشمِ تَر میری
ایک ذرہ ہُوں ایک ذرے پر
ذات کتنی ہے معتبر میری؟
پوچھتا پھر رہا ہوں تاروں سے
کیا کسی کو مِلی خبر میری؟
چشمِ ساقی کو بھُول بیٹھا ہُوں
دستِ ساقی پہ ہے نظر میری
کل وہ چُپکے سے مُسکرائیں گے
آج برہم ہیں بات پر میری
آج پھر اِس اندھیر نگری میں
لُوٹ لی شاہ نے سَحَر میری
اپنے انجام کی طرف صاحِب
عمر بڑھتی ہے عمر بھر میری!