صبحِ نجم بھی دغا دے گیا مجھ کو
محوِ یار تھا آہٹ بھی نہ کی اُس نے
عاجِل تھا مہر میں مغموم رہا کرتا وہ
وِصالِ یار کی ملاوٹ بھی نہ کی اُس نے
قُربِ یار کا ڈھب تو اُسے آتا ہی نہ تھا
شُوم تھا وہ کڑواہٹ بھی نہ کی اُس نے
کاذِب تھا میکدے کا پیامبر بن کر
سَم دے دی سلوٹ بھی نہ لی اُس نے
مَرقد پے آ نِدا ہی دے دیتا مجھ کو
یارانگی کی میلاہٹ بھی نہ کی اُس نے
چھید کر گیا وہ قصرِ مہرِ (ساک) آکر
ٹھوکر مار کہ آہٹ بھی نہ کی اُس نے