امی میری کتابیں بستے میں ڈال دینا
اوزار جو پڑے ھیں باھر نکال دینا
اوزار لے کہ جب میں جاتا ہوں کارخانے
بھیجیں سب اپنے بچے اسکول میں پڑھانے
رھتا ھے مجھ کو ہر دم احساس کمتری کا
قصے کہانیاں کہ جنھیں پڑھ نہیں میں سکتا
ہر دن ہی شوق سے میں سنتا ہوں یہ ترانہ
“ آتا ہے یاد مجھکو گذرا ھوا زمانہ “
ہمراہ بس اک قلم ہے کبھی جس سے کھیلتا ھوں
ہاتھوں کی خستہ حالت لکیروں پہ پھیرتا ھوں
ماں ۔ ۔ ۔
اسکول کیسے بھیجوں، ہمت نہیں ہماری
تعلیم حاصل کرنا، قسمت نہیں تمہاری
اس تیرگی میں کب سے تقدیر سو چکی ھے
سو جاؤ تم بھی جا کر، بڑی دیر ھو چکی ھے
بچہ ۔ ۔ ۔
اچھا ناراض نہ ھو، سونے کو جا رھا ھوں
لیکن سمجھ لو اتنا، جو میں بتا رھا ھوں
میں ھوں اگرچہ چھوٹا، تقدیر سے لڑوں گا
اس کو گرا کہ نیچے، سینے پہ جا چڑھوں گا
نظریں ملا کہ اس سے وعدہ میں یہ کروں گا
دن میں کرونگا محنت اور رات میں پڑھوں گا
ھو عزم کوہ شکن تو تقدیر سر نگوں ھے
امید ھے فروزاں، گر قوتِ جنوں ھے
سید نذیر کاظمی