Add Poetry

اماں۔۔۔!

Poet: UA By: UA, Lahore

اماں میں نے تیری آنکھوں میں ہمیشہ تفکر دیکھا ہے
اداسی دیکھی ہے چمک دیکھی ہے
اپنی اولاد کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے
اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے
اپنی اولاد سے محبت کے لئے
تیرے دل پہ کتنے داغ ہیں
تیری آنکھوں میں کتنے اشک ٹھہرے ہیں
لیکن پھر بھی تیرے لبوں پہ
ہمیشہ تبسم دمکتا دیکھا ہے
تیرے رخسار کی لالی میں محبت دیکھی ہے
وہ بے پناہ محبت جو لازوال ہے جو بےمثال ہے
اماں مجھے یاد ہے تیرا مجھ سے کیا وعدہ
مگر میں شرمندہ ہوں کہ تجھ سے کیا وعدہ وفا نہ کر سکی
اپنے وعدے سے خود ہی نبھا نہ کر سکی
میں نہیں خیال رکھ سکی تیرے گلشن کے پھولوں کا
ویسے جیسے تو نے چاہا مجھ سے کہ تیرے بعد
رکھ سکوں گی میں تیرے آشیانے کے پرندوں کا خیال
تو مجبور تھی میں تجھ سے زیادہ مجبور ہوں
کیونکہ میں اماں نہیں ہوں نہ کبھی ہو سکتی ہوں
تیری اولاد کے لئے جیسی تو تھی
لوگ کہتے ہیں کہ تو اپنی اماں جیسی ہے
میں تیرا عکس سہی پر تو نہیں
اماں مجھے آج بھی تیرے کرب کے
وہ پل وہ دن وہ پہر وہ شبیں یاد ہیں
ایسے جیسے برسوں پہلے کی نہیں آج کی بات ہے
جب تو دن بھر اپنی اولاد کی
ضرورتیں پوری کرنے کی جسجو میں
تھک ہار کے گھر واپس گھر آتی تو
ادھر ادھر گلی سڑک اور چھت پہ بکھرے بچے
امی آگئیں امی آگئیں کہہ کے بھاگے آتے
آ کے تیرے پہلو سے لپٹ جاتے
اور میں چپ چاپ یہ منظر پاس کھڑی دیکھتی
تیرے چہرے کی تھکان بچوں کو دیکھتے ہی
شفقت بھری مسکان میں بدل جاتا
جلدی جلدی ایک ہی بڑے سے برتن میں ہم سب کے لئے
کھانا پکا کے نکالتی اور ننھے ننھے چوزوں کی طرح
ہم سب مل کے جلدی جلدی کھانا کھاتے
اور شاید کبھی یہ دیکھا سوچا ہی نہیں
کہ اماں ہماری طرح جلدی جلدی کھانا کیوں نہیں کھا رہیں
اماں تیرے بچے تو دن بھر کھیل کود کے بعد
پیٹ بھر کے بےفکر ہو کہ سو جایا کرتے
لیکن دن بھر کی تھکن تجھے چین نہ لینے دیتی
اور تو اپنی تھکن اپنی چبھن اپنی تکلیف کا احساس
اپنی اولاد کو ہونے نہ دیتی
لیکن اماں کوئی بےچینی تھی جو
مجھے بھی رات بھر سونے نہ دیتی
اماں میں نے کبھی تجھے قیمتی لباس
قیمتی زیورات میں ملبوس نہ دیکھا
لیکن میری اماں تو پھر بھی سب سے پیاری
سب سے حسین دیکھائی دیتی تھی تیری سادگی
تیری محبت تیرا تکلم تیرا تبسم ہی تیرا حسن
تیری دلکشی تھا کہ تو بے پناہ حسین دکھائی دیتی تھی
لیکن اماں نہ جانے اس حسن اس دلکشی کے پیچھے
کیسے کیسے دکھ چھپا رکھے تھے تو نے اپنی ذات میں
اماں میری بڑی آرزو تھی کہ میں بڑی ہوکہ تیرے لئے
سب سے پہلے سونے کی بالیاں لے کر آؤں گی
اماں تم موتیے کی کلیاں پھر ان بالیوں میں پرو کے پہنوں گی
تو کسی شہزادی سے بھی زیادہ خوبصورت بن جاؤ گی
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں۔۔۔۔۔۔! تم تو میرے بڑے ہونے سے پہلے ہی
ہم سے بچھڑ گئیں بہت دور ہم سے بہت دور نکل گئیں
اماں میں کیسے سمیٹتی تیرے آشیانے کو میں تو خود بکھر گئی
جب سے تجھ سے بچھڑ گئی اماں۔۔۔! تیری اولاد بکھر گئی

Rate it:
Views: 360
14 May, 2012
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets