کس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں
Poet: جاناں ملک By: عرفان آصف, Abbottabadکس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں
کس کے ہونٹوں پہ آ گئی تھی میں
کن زمانوں پہ منکشف ہوئی ہوں
کن زمانوں کی روشنی تھی میں
میں کسی شخص کی اداسی تھی
سرد لہجے میں بولتی تھی میں
دن ڈھلے لوٹتے پرندوں کو
گھر کی کھڑکی سے دیکھتی تھی میں
کاش اک بار دیکھ لیتے تم
راستے میں پڑی ہوئی تھی میں
اب جو افسردگی کی چادر ہوں
موسم گل کی اوڑھنی تھی میں
خود کو دریافت کرنے نکلی ہوں
یعنی خود سے کہیں خفی تھی میں
گنگناتا تھا شب کے پچھلے پہر
جانے کس دل کی راگنی تھی میں
پھر دسمبر تھا سرد راتیں تھیں
شہر سوتا تھا جاگتی تھی میں
اس نے جب ہاتھ ہاتھ پر رکھا
سرخ پھولوں سے بھر گئی تھی میں
آج دیکھا تھا آئنہ میں نے
اور پھر دیر تک ہنسی تھی میں
جانے کیا بات یاد آئی مجھے
ہنستے ہنستے جو رو پڑی تھی میں
میں نے اک شام پا لیا تھا اسے
اس سے اک رات کھو گئی تھی میں
جانتا کون مجھ کو میرے سوا
گھر کے اندر بھی اجنبی تھی میں
میری پرتیں نہیں کھلیں اب تک
دیوتاؤں کی شاعری تھی میں
خود سے ٹکرا گئی تھی جاناںؔ کہیں
اپنے رستے میں آ گئی تھی میں
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے
چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
شوقین ہو جس کو پڑهنے کے تم
دسمبر کی وه اداس شاعری ہوں میں
جاتے ہوئے دسمبر کی کھڑکی سے
میں نے ہنستا ہوا جنوری دیکھا
اف یہ دسمبر کی آخری گھڑیاں
میرے پہلو میں کاش تم ہوتے
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ھمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
ان دنوں تعلق تھوڑا مضبوط رکھنا
سنا ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے
دسمبر جب بھی لوٹتا ہے میرے خاموش کمرے میں
میرے بستر پر بکھری کتا بیں بھیگ جاتی ہیں
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
جم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں
جو ہمیں بھول ہی گیا تھا اسے
یاد آئے ہیں ہم دسمبر میں
سارے شکوے گلے بھلا کے اب
لوٹ آ اے صنم دسمبر میں
کس کا غم کھائے جا رہا ہے تمہیں
آنکھ کیوں ہے یہ نم دسمبر میں
یاد آتا ہے وہ بچھڑنا جب
خوب روئے تھے ہم دسمبر میں
وہی پل ہے وہی ہے شام حزیں
آج پھر بچھڑے ہم دسمبر میں
بس یہی اک تمنا ہے اندرؔ
کاش مل جائیں ہم دسمبر میں






