فطرت کے رنگوں کی نمائش عجب ہے
کبھی بہار کبھی خزاں یہ زیبائش عجب ہے
قرنوں سے خود مجھ کو تلاش ہے اپنی
مجھ سے ملنے کی تیری فرمائش عجب ہے
مجھ کو سراہ کہ میرے زخموں کو چھوا ہے
اے دل نشین! تیرا انداز ستائش عجب ہے
تا عمر سرد جذبوں کے درمیاں گزری ہے
مگر تیری محبت کی گرمائش عجب ہے
کٸ قبریں سما جائیں اس شہر خموشاں میں کلیم
میرے داغ دار دل میں گنجائش عجب ہے