Poetries by Zahida Ali
ماضی کی یادوں کا قلعہ بنا کے ماضی کی یادوں کا قلعہ بنا کے
ان کے جھروکوں سے میں دیکھتی ہوں
آنسوؤں کی ہے ندیا بہتی ہوئی
اور اس میں آس کی ناؤ ڈولتی ہوئی
ڈھونڈتی ہے کنارا مگر ہے کہاں
اندھیرا اندھیرا اندھیرا
اجالا مگر ہے کہاں
آہوں سسکیوں کا شور ہے
لاشیں آرزؤں کی تڑپتی ہوئیں
بکھری ہیں جا بجا
اٹھی نظر تو دیکھا عجب اک تماشا
اپنے ہی ہاتھ میں دبا ہوا ہے خنجر
اپنا ہی لہو اپنے ہاتھ پر
کانپ اٹھا سارا جسم و تن
کہاں یارا اب اور دیکھنے کا
خوف سے کر لیں بند آنکھیں
نکل آئی ماضی کی دھند سے
ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ
ڈر گئی حال کا آئینہ دیکھ کر zahida ali
ان کے جھروکوں سے میں دیکھتی ہوں
آنسوؤں کی ہے ندیا بہتی ہوئی
اور اس میں آس کی ناؤ ڈولتی ہوئی
ڈھونڈتی ہے کنارا مگر ہے کہاں
اندھیرا اندھیرا اندھیرا
اجالا مگر ہے کہاں
آہوں سسکیوں کا شور ہے
لاشیں آرزؤں کی تڑپتی ہوئیں
بکھری ہیں جا بجا
اٹھی نظر تو دیکھا عجب اک تماشا
اپنے ہی ہاتھ میں دبا ہوا ہے خنجر
اپنا ہی لہو اپنے ہاتھ پر
کانپ اٹھا سارا جسم و تن
کہاں یارا اب اور دیکھنے کا
خوف سے کر لیں بند آنکھیں
نکل آئی ماضی کی دھند سے
ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ
ڈر گئی حال کا آئینہ دیکھ کر zahida ali
میں اک زرد پتے کی صورت میں اک زرد پتے کی صورت
ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں
کبھی اس نگر
کبھی اس نگر
کبھی راستوں میں چھوڑ دے
اور منزلیں قدموں میں روند دیں
غم کی بارش یوں برسے
مجھے سر تا پا بھگو دے
دکھوں کی تمازت سے جل اٹھوں جب
تو لب پہ فریاد مچل اٹھے
آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دل کی تڑپ پھر فریاد کناں ہوئی
اور فریاد اس در کی جا کے سوالی ہوئی
اب ابر رحمت کی چھائہ کر دی
اے مولا zahida ali
ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں
کبھی اس نگر
کبھی اس نگر
کبھی راستوں میں چھوڑ دے
اور منزلیں قدموں میں روند دیں
غم کی بارش یوں برسے
مجھے سر تا پا بھگو دے
دکھوں کی تمازت سے جل اٹھوں جب
تو لب پہ فریاد مچل اٹھے
آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دل کی تڑپ پھر فریاد کناں ہوئی
اور فریاد اس در کی جا کے سوالی ہوئی
اب ابر رحمت کی چھائہ کر دی
اے مولا zahida ali
دکھ گہرا ہے جھانکو تو درد نظر نہیں آتا دکھ گہرا ہے جھانکو تو درد نظر نہیں آتا
خشک آنکھوں میں دیکھو تو آنسو نظر نہیں آتا
مقدر کی طرح نتھی ہیں مجھ سے تاریک راتیں
ڈھونڈتی ہوں روشنی کا دیا دکھائی مگر نہیں آتا
ہر خواب کی تعبیر کہاں ملتی ہے
ہر پھول پہ رقص کرتا بھنورا نظر نہیں آتا
کس طرح میں اپنے دکھ کی داستاں بیان کروں
ہر کوئی تو یہاں ہمدرد سخنور نہیں ہوتا
کس کو الزام دوں دل ٹوٹنے کا
دکھائی کسی ہاتھ میں بھی پتھر نہیں آتا
پھیلتے اجالے کو نہ دن سمجھ لیا کرو
ہر اجالا تو قمر نہیں ہوتا zahida ali
خشک آنکھوں میں دیکھو تو آنسو نظر نہیں آتا
مقدر کی طرح نتھی ہیں مجھ سے تاریک راتیں
ڈھونڈتی ہوں روشنی کا دیا دکھائی مگر نہیں آتا
ہر خواب کی تعبیر کہاں ملتی ہے
ہر پھول پہ رقص کرتا بھنورا نظر نہیں آتا
کس طرح میں اپنے دکھ کی داستاں بیان کروں
ہر کوئی تو یہاں ہمدرد سخنور نہیں ہوتا
کس کو الزام دوں دل ٹوٹنے کا
دکھائی کسی ہاتھ میں بھی پتھر نہیں آتا
پھیلتے اجالے کو نہ دن سمجھ لیا کرو
ہر اجالا تو قمر نہیں ہوتا zahida ali
بہار آئی ہے آؤ گلشن چلیں بہار آئی ہے آؤ گلشن چلیں
خوشیاں سمیٹنے دامن چلیں
جا بہ جا پھول کھلے ہیں
ہنس ہنس کے اک دوسرے کو دیکھتے ہیں
بکھرے ہیں یہاں رنگ کئی
کہیں نیلا کہیں پیلا کہیں گلابی سرمئی
تتلیاں خوشی سے جھومتی پھرتی ہیں
ہنس ہنس کے پھولوں سے بات کرتی ہیں
بھنورے دیوانہ وار ان کو چومتے ہیں
ان کے اس پیار پہ پھول شرماتے ہیں
کیا کیا بتاؤں گلشن میں کیا رونق تھی
ہر اک کے چہرے پہ عجب رونق تھی
لوٹی جب تو دل سرشار تھا
دل میں بس پیار ہی پیار تھا zahida ali
خوشیاں سمیٹنے دامن چلیں
جا بہ جا پھول کھلے ہیں
ہنس ہنس کے اک دوسرے کو دیکھتے ہیں
بکھرے ہیں یہاں رنگ کئی
کہیں نیلا کہیں پیلا کہیں گلابی سرمئی
تتلیاں خوشی سے جھومتی پھرتی ہیں
ہنس ہنس کے پھولوں سے بات کرتی ہیں
بھنورے دیوانہ وار ان کو چومتے ہیں
ان کے اس پیار پہ پھول شرماتے ہیں
کیا کیا بتاؤں گلشن میں کیا رونق تھی
ہر اک کے چہرے پہ عجب رونق تھی
لوٹی جب تو دل سرشار تھا
دل میں بس پیار ہی پیار تھا zahida ali
میرے لوٹ آئیں وہ سماں اے کاش ! کہ میرے لوٹ آئیں وہ سماں
وہ وقت وہ بے دھیانی کے جہاں
کسی بات کی پرواہ نہ ہوتی تھی
بس خود تھے اور اپنا اک جہاں
خوشی کے پھول کھلتے تھے ہر سو ہر جا
نہ تھا کچھ دل کو خطرہ جہاں
کبھی اندھیرے کا ڈر نہ ہوتا تھا کیونکہ
اپنے ارد گرد پھیلی رہتی تھی اک کہکشاں
وہی کرتے تھے جو دل میں ٹھانی ہوتی تھی
نہ ڈر کسی کا تھا نہ خوف جہاں
پھر نہ جانے کیا ہوا رت بدل گئی
منزل پہ پہچنے سے پہلے لٹ گیا کارواں zahida ali
وہ وقت وہ بے دھیانی کے جہاں
کسی بات کی پرواہ نہ ہوتی تھی
بس خود تھے اور اپنا اک جہاں
خوشی کے پھول کھلتے تھے ہر سو ہر جا
نہ تھا کچھ دل کو خطرہ جہاں
کبھی اندھیرے کا ڈر نہ ہوتا تھا کیونکہ
اپنے ارد گرد پھیلی رہتی تھی اک کہکشاں
وہی کرتے تھے جو دل میں ٹھانی ہوتی تھی
نہ ڈر کسی کا تھا نہ خوف جہاں
پھر نہ جانے کیا ہوا رت بدل گئی
منزل پہ پہچنے سے پہلے لٹ گیا کارواں zahida ali
اک امید ہے وابستہ اپنے مقدر سے اک امید ہے وابستہ اپنے مقدر سے
میری تاریک شام میں پھیلے گی روشنی قمر سے
اس طرح کی نہ باتیں تم کیا کرو کہیں
تم بھی نہ مسکراؤ کل جبر سے
آزاد ہے میری سوچ ہر طرف سے
دل ڈرتا ہے سماج کے مگر سحر سے
بہہ اٹھتیں ہیں اپنے حد سے باہر نہیں ہوتی
آنکھوں کو ہے میری نسبت سمندر سے
میں اڑنے کی تمنا تو نہیں رکھتا پھر کیوں
جلتی ہے یہ ہوا میرے پر سے
zahida ali
میری تاریک شام میں پھیلے گی روشنی قمر سے
اس طرح کی نہ باتیں تم کیا کرو کہیں
تم بھی نہ مسکراؤ کل جبر سے
آزاد ہے میری سوچ ہر طرف سے
دل ڈرتا ہے سماج کے مگر سحر سے
بہہ اٹھتیں ہیں اپنے حد سے باہر نہیں ہوتی
آنکھوں کو ہے میری نسبت سمندر سے
میں اڑنے کی تمنا تو نہیں رکھتا پھر کیوں
جلتی ہے یہ ہوا میرے پر سے
zahida ali
آج کا سورج مایوسیاں سمیٹے ڈوب گیا آج کا سورج مایوسیاں سمیٹے ڈوب گیا
کل پھر کسی نئی امید پہ طلوع ہو گا
دل کسی کی یاد سے آباد تو ہے مگر
پھر اسی یاد سے پریشان ہو گا
ماضی بھول بھی جاؤں تو حال درد ہے
نہ جانے مستقبل کیا ہو گا
کیوں نہیں چھین لی جاتی یاد داشت مجھ سے
نہ یاد کچھ آئے گا نہ کرب ہو گا
آنکھوں نے خوابوں کو الوادع کر دیا
اب نیند تو آئے گی پر خواب نہ ہو گا
zahida ali
کل پھر کسی نئی امید پہ طلوع ہو گا
دل کسی کی یاد سے آباد تو ہے مگر
پھر اسی یاد سے پریشان ہو گا
ماضی بھول بھی جاؤں تو حال درد ہے
نہ جانے مستقبل کیا ہو گا
کیوں نہیں چھین لی جاتی یاد داشت مجھ سے
نہ یاد کچھ آئے گا نہ کرب ہو گا
آنکھوں نے خوابوں کو الوادع کر دیا
اب نیند تو آئے گی پر خواب نہ ہو گا
zahida ali
قتل گاہ میں اپنی لاش کو تڑپتے دیکھا قتل گاہ میں اپنی لاش کو تڑپتے دیکھا
قاتل پہ کی نگاہ تو اپنے ہاتھ میں خنجر دیکھا
سائے کی تلاش میں سرگرداں رہا سفر
جستجو ساری رائیگاں گئی دھوپ کا ثمر دیکھا
ہر گھر کے اوپر روشنی تھی مگر
اپنے گھر کے اوپر چمکتا تاریک قمر دیکھا
اداس کرنے دوپہر ہر روز آتی ہے
مگر اسے اداسیوں سے بے خبر دیکھا zahida ali
قاتل پہ کی نگاہ تو اپنے ہاتھ میں خنجر دیکھا
سائے کی تلاش میں سرگرداں رہا سفر
جستجو ساری رائیگاں گئی دھوپ کا ثمر دیکھا
ہر گھر کے اوپر روشنی تھی مگر
اپنے گھر کے اوپر چمکتا تاریک قمر دیکھا
اداس کرنے دوپہر ہر روز آتی ہے
مگر اسے اداسیوں سے بے خبر دیکھا zahida ali
کوئی سایئہ شجر نہیں آبلہ پا ہیں پاؤں کوئی سایئہ شجر نہیں
اندھیر ہے راستہ ضیائے قمر نہیں
دلوں میں انقلاب آئے تو کیسے آئے
انقلاب لانے والے اب وہ رہبر نہیں
پھولوں کا بار اٹھا کے کیوں چلے ہو
خوشبوں تو تمہارے ہم راہ سفر نہیں
لب پہ کیوں صدائے محبت سجا ڈالی
نفرتوں کے ہیں باسی باوفا شہر نہیں
لوٹا دو میرے وہ سب لمحے مجھے
بے فکر تھا میں اور تھی کوئی فکر نہیں zahida ali
اندھیر ہے راستہ ضیائے قمر نہیں
دلوں میں انقلاب آئے تو کیسے آئے
انقلاب لانے والے اب وہ رہبر نہیں
پھولوں کا بار اٹھا کے کیوں چلے ہو
خوشبوں تو تمہارے ہم راہ سفر نہیں
لب پہ کیوں صدائے محبت سجا ڈالی
نفرتوں کے ہیں باسی باوفا شہر نہیں
لوٹا دو میرے وہ سب لمحے مجھے
بے فکر تھا میں اور تھی کوئی فکر نہیں zahida ali
مقدر کہاں اپنے ہاتھ سے لکھا جاتا ہے مقدر کہاں اپنے ہاتھ سے لکھا جاتا ہے
یہ تو وہ صحیفے ہیں
جو آسمانوں سے اترتے ہیں
ان میں کتنا بار دکھوں کا ہے
کتنا چین سکھوں کا ہے
یہ صبر کے میزان میں تولے جاتے ہیں
پھر زندگی کو پرکھنے کو دئے جاتے ہیں
پھر حوصلہ انہیں برتتا ہے
اور اعمال کی چادر میں باندھتا ہے
اور یہ گٹھڑی لے کے اس دنیا کے پار اترنا ہے
اب آر ہوئے
یا پار ہوئے
یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے zahida ali
یہ تو وہ صحیفے ہیں
جو آسمانوں سے اترتے ہیں
ان میں کتنا بار دکھوں کا ہے
کتنا چین سکھوں کا ہے
یہ صبر کے میزان میں تولے جاتے ہیں
پھر زندگی کو پرکھنے کو دئے جاتے ہیں
پھر حوصلہ انہیں برتتا ہے
اور اعمال کی چادر میں باندھتا ہے
اور یہ گٹھڑی لے کے اس دنیا کے پار اترنا ہے
اب آر ہوئے
یا پار ہوئے
یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے zahida ali
اک یاد کا ہے سہارا جی رہے ہیں ہم اک یاد کا ہے سہارا جی رہے ہیں ہم
پاس پیار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
تیرے انتظار میں آنکھوں کو ہیں وا کئے ہوئے
بس انتظار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
تیرے قدموں کی چاپ سن کے کانوں کو راحت ملے
دل میں انتظار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
رکھتے ہیں چھپا چھپا کے تیری یاد کو مبادا
سن لے نہ کوئی کہ ذکر ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
وہ گھڑی مبارک ہو گی جب آمد تمہاری ہو گی
اس گھڑی کا ہے اشارا جی رہے ہیں ہم zahida ali
پاس پیار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
تیرے انتظار میں آنکھوں کو ہیں وا کئے ہوئے
بس انتظار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
تیرے قدموں کی چاپ سن کے کانوں کو راحت ملے
دل میں انتظار ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
رکھتے ہیں چھپا چھپا کے تیری یاد کو مبادا
سن لے نہ کوئی کہ ذکر ہے تمہارا جی رہے ہیں ہم
وہ گھڑی مبارک ہو گی جب آمد تمہاری ہو گی
اس گھڑی کا ہے اشارا جی رہے ہیں ہم zahida ali