Add Poetry

سخن میں بھی تو ،استعاروں میں تو ہے

Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملائیشیا

سخن میں بھی تو ،استعاروں میں تو ہے
مرے علم کے کچھ اشاروں میں تو ہے

مسلسل مری آنکھ سے بہہ رہا ہے
سمندر کے دلکش کناروں میں تو ہے

مجھے عشق نے تو نکما کیا ہے
میں پہلے تھی اب تو خساروں میں تو ہے

محبت کی مجھ سے نہ رکھنا امیدیں
جفاؤں کی جب رہگزاروں میں تو ہے

چمکتے ، دمکتے جو رہتے ہیں ہر دم
مری آنکھ کے ان ستاروں میں تو ہے

میں بیٹھی ہوئی جب غزل لکھ رہی ہوں
مری سوچ کی سب بہاروں میں تو ہے

یہ کیا سلسلہ ہے ہمارا ، تمہارا
تمہاروں میں میں ہوں ، ہماروں میں تو ہے

میں نغمہ ترا تو مری ہی صدا ہے
مرے دل کے سب ساز ،تاروں میں تو ہے

ترے ذکر سے میری روشن ہے دنیا
فلک کے چمکتے ستاروں میں تو ہے

ترے دشمنوں کی بھی آنکھیں ہیں نیچی
کہ وشمہ حیا کے حصاروں میں تو ہے

Rate it:
Views: 275
04 Nov, 2015
Related Tags on Life Poetry
Load More Tags
More Life Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets