Add Poetry

آؤ پھر سے بانٹ لو مجھ کو

Poet: Haya Ghazal By: Haya Ghazal, Karachi

اسی پت جھڑ کے موسم میں
بہت کمزور سے جھری زدہ
ہاتھوں سے در تھامے
سوالوں میں وہ شکوؤں میں گھری
روتی ہوئ آنکھیں،
شفق سے پوچھتی ہیں میرا آنگن کیوں ہے؟ یوں خالی
یہ میلی دھوپ کیا بس میرے آنگن میں اترتی ہے؟
کہ سورج کی تمازت سے مری روح تک جھلستی ہے
ازل سے خاک پیراہن سی سولی پر لٹکتی ہے
وہ پھولوں کی طرح کھلتے ہوئے معصوم سے بچے
کبھی ہنستے، کبھی روتے وہ روٹھے مانتے بچے،
میرے انگن کی گیلی مٹی میں لتھڑے ہوئے بچے
سنوارا تھا جنہین ،پروان چڑھایا تھا کبھی میں نے
وہی معصوم سی اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے بچے
سہے تھے جنکی خاطر
موسموں کے وار سب میں نے
کہ اپنی زیست کے جہد مسلسل کی روانی میں
سبھی کچھ تو لٹایا تھاان پر اپنے دامن سے
مٹاکر بھوک جنکی میں شکم سے سیر ہوتی تھی
کہ جنکی نیند سے پہلے میری آنکھیں نہ سوتی تھیں
وہ ہنستے تھے میں ہنستی تھی
وہ روتے تھے میں روتی تھی
میری آنکھوں میں ان کو دیکھ کے جگنو چمکتے تھے
انہی کو دیکھ کے میں زندگی اپنی یہ جیتی تھی
سبھی کچھ تو دیا اپنا لٹا کے اک اک سپنا
چاہے عزت ہو دولت مرتبہ ہو وقت ہو اپنا
نہ جانے کتنے تنکے جوڑ کے گلشن بنایا تھا
محبت سے رفاقت سے جسے ہم نےسجایا تھا
خزاں کا ایک کاری وار کیسے سہہ نہیں پایا
وہ دن کتنا قیامت تھا،جو کوئ لوٹ نہ پایا
وہ ہنستے کھیلتے بچے بڑے اب ہوگئے کافی
کسی غلطی پہ اب وہ مانگتے مجھ سے نہیں معافی
پرانی میری یادوں کو نخوت سے ہٹاتے ہیں
کئ اب قیمتی چیزوں سے میرا گھر سجاتے ہیں
انھیں میرا کہا کچھ بھی ہو اب سچا نہیں لگتا
جواں چہروں کو شاید آئینہ اچھا نہیں لگتا
کبھی کمبل نہیں ملتا فرش پہ میں سکڑتی ہوں
کبھی میلے کچیلے کپڑوں سے اس تن کو ڈھکتی ہوں
کبھی بھوکی بھی سوتی ہوں
میں اکثر چھپ کے روتی ہوں
میں جب کہتی ہوں
میری ہڈیوں میں اب نہیں سکت
میں جب کہتی ہوں
میرا دل بہت بے چین رہتا ہے
میں جب کہتی ہوں
مجھ کو ٹھیک سے اب کچھ نہیں دکھتا
وہ بے رنگ دیواریں وہ ٹوٹا در نہیں دکھتا
میری حالت پہ ہنستے ہیں
کبھی خفگی دکھاتے ہیں
کبھی بھوکا سلاتے ہیں
کبھی باتیں بناتے ہیں
یہانتک کہ وہ دن بھی میرے آنگن میں اترتا ہے
جو میرے تن کا حصہ تھے نئ دنیا بساتے ہیں
میرے آنگن میں کھلتے پھول جو موتی چنبیلی کے
میرے بالوں میں کوئ روز ہی جنکو سجاتا تھا
جھلستے رہتے ہیں اب روز میں پانی نہیں دیتی
میں اپنے خالی گھر سے دھوپ یہ جانے نہیں دیتی
وہ پیپل کا پرانا پیڑ سایہ اب نہیں کرتا
نہ جانےروز ہی کتنے خشک پتے گراتا ہے
وہ بوسیدہ سی کنڈی کا قفل منہ کو چڑاتا ہے
میری آنکھوں میں اب بھی ہے بچی شبنم دعاوؤں کی
میرے دامن سے لپٹی بیل ہے اب بھی وفاؤں کی
اور اس شبنم کا ہر تارہ
میرے آنچل کو پھیلا کر
بھلائی مانگتا ہے ڈوبتی صبح کے ستارے کی
ابھی بھی منتظر ہوں لوٹ کے آئے کوئ شاید
تو میں بتلاؤں انکو تم بھی کل یونہی تنہا ہوگے
اگر تنہائی سے بچنا ہے تو پھر بانٹ لو مجھ کو
میرے دامن میں جو خوشیاں بچیں ہیں وہ لٹادوں گی
میری تنہائی بانٹو گے تو میں دل سے دعا دوں گی
تو میں دل سے دعا دوں گی
 

Rate it:
Views: 636
18 Nov, 2016
More Mother Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets