میں میرے نصیب کو دیکھ کر
یونہی بے ارادہ تڑپ اٹھا
کہیں درد کے ہیں قدم پڑے
کہیں جا بجا ہیں ناکامیاں
ناں سکوں ملا نا ہی راحتیں
سرِ راہ یونہی گرا کیے
جو قدم بڑھایا تو دیکھ کر
سبھی کامیاب تڑپ اٹھے
مجھے یوں گرایا کہ جابجا
نہ نشیب سے میں نکل سکا
جو سوال تھا کسی رزم کا
میں کبھی بھی وہ نہ نبھا سکا
نہیں یوں کہ میں نے نا چاہا تھا
مگر اس لیے کہ نصیب میں
یہی ایک قصہ ہی درج تھا
کہ زوال ہے تو زوال بس
یہی تیرا حرفِ آغاز تھا
یہی تیری حدِ فتح بھی ہے