بیتے دنوں کی یاد میں آنسو بہائیں ہم
اگلی رفاقتوں کو کہاں بھول پائیں ہم
خوشیوں کی آرزو میں ملے غم ہی غم ہمیں
اتنا نہ ہو سکا کہ کبھی مسکرائیں ہم
جانے کیا دل میں سوچ کے ہوتی ہے آنکھ نم
دستِ دعا طلب میں تری جب اٹھائیں ہم
سوچا ہے اہتمام یہ فرقت کی رات کا
وہ آئے تو ہر گام پہ مژگاں بچھائیں ہم
دیتے ہیں لوگ دھوکا بڑے ہی خلوص سے
کس پہ کریں بھروسہ کسے آزمائیں ہم
راہیں اسی کی یاد سے منسوب ہیں نثار
آؤ کہ اپنے گھر کی طرف لوٹ جائیں ہم