مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات

کیر کو زندگی کے اختتام کے تجربات کے مطالعے پر دنیا کے سرکردہ افراد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ تجربات عام طور پر موت سے ہفتوں پہلے شروع ہوتے ہیں، اور اختتام کے قریب آتے ہی ان کی فریکوئنسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو اپنی زندگی کے اہم لمحات کو یاد کرتے ہوئے دیکھا، ماؤں، والد، بچوں اور یہاں تک کہ پالتو جانوروں سے بھی بات کرتے ہوئے جو کئی سال پہلے مر چکے تھے۔
علامتی تصویر
Getty Images

یہ اپریل 1999 کی بات ہے جب امریکہ کے ڈاکٹرکرسٹوفر کیر نے اپنی پریکٹس کے دوران ایک ایسا واقعہ دیکھا جس نے ان کے کیریئر کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔

’میری‘ نامی 70 سالہ خاتون اُن کے زیر علاج تھیں۔ وہ ایک ایسی مریضہ تھیں جو تقریباً موت کے دہانے پر تھیں اور اُن کے ارد گرد ان کے چار بچے بھی ہسپتال کے کمرے میں موجود تھے۔ ان کے تمام بچے بالغ اور بڑی عمر کے تھے۔

موت سے کچھ دیر قبل میری بستر پر بیٹھ گئیں اور اپنے بازوؤں کو اس طرح ہلانے لگیں جیسے وہ کسی بچے کو بانہوں میں لے کر پیار کر رہی ہوں۔ مگر کمرے میں موجود ڈاکٹر اور ان کے بچوں کو کوئی نظر نہیں آ رہا تھا، وہ کوئی ایسی مخلوق تھی جسے وہی دیکھ پا رہی تھیں۔ وہ بار بار اس نادیدہ بچے کو ’ڈین‘ کہہ کر پکارتیں اور ایسے اشارے کرتیں جیسے وہ بچے کوگلے لگا کر بوسہ دے رہی ہوں۔

میری کے ان اشاروں نے سب کو حیران کر دیا، کیونکہ ان کے بچے بھی نہیں جانتے تھے کہ ’ڈین‘ کون ہے جس کا وہ نام لے رہی تھیں۔

اس کے کچھ دیر بعد میری کی وفات ہو گئی۔ اگلے دن اُن کی بہن ہسپتال پہنچیں تو انھوں نے بتایا کہ کئی دہائیوں پہلے میری کے ہاں پیدا ہونے والا ان کا پہلا بیٹا ’ڈین‘ تھا اور وہ پیدائش کے وقت ہی مردہ پیدا ہوا تھا۔

اس کو کھونے کا صدمہ اتنا زیادہ تھا کہ میری نے اپنی باقی زندگی بچے کے بارے میں بات نہ کرتے ہوئے گزاری، انھوں نے کبھی اس سے متعلق اپنے بچوں سے بھی بات نہیں کی۔ تاہم موت کے وقت اتنے سال پہلے کھوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر بظاہر اس خاتون کو سکون ملا۔

ڈاکٹر کیر نے اس کہانی کو اپنے متعدد انٹرویوز اور لیکچرز میں بیان کیا ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ میڈیکل کی فیلڈ میں انھوں نے اپنا کیریئر کیسے تبدیل کیا اور خود کو انتہائی بیمار مریضوں کو آخری وقت میں (موت سے کچھ دیر قبل) پیش آنے والے آخری تجربات کا مطالعہ کرنے کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

میری کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کے 25 سال بعد ڈاکٹر کیر کو زندگی کے اختتام کے تجربات کے مطالعے کے موضوع کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔

اُن کے مطابق مرنے والے شخص کو اِن تجربات کا علم موت سے ہفتوں پہلے شروع ہو جاتا ہے اور زندگی کے اختتام کے قریب آتے ہی ایسے واقعات کے رونما ہونے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر کیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے موت سے قبل لوگوں کو اپنی زندگی کے اہم لمحات کو یاد کرتے ہوئے دیکھا۔ اپنی ماؤں، والد، بچوں اور یہاں تک کہ پالتو جانوروں سے بھی بات کرتے ہوئے دیکھا، جو کئی سال پہلے مر چکے تھے۔

موت سے قبل کسی بھی شخص کے لیے یہ نظارے حقیقی اور شدت سے بھرپور ہوتے ہیں اور مریض کے لیے طمانیت کا باعث ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر کیر کے مطابق موت سے قبل اس نوعیت کے تجربات سے گزرنے والے افراد میں الجھن یا غیر مربوط خیالات نہیں ہوتے، اور اگرچہ ان کی جسمانی صحت میں تنزلی آتی ہے لیکن وہ جذباتی اور روحانی طور پر بہتر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے ڈاکٹر ان مظاہر کو ’ہیلوسینیشن‘ (غیرحقیقی اور تخیلاتی) یا الجھن کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

اسی لیے ڈاکٹر کیر نے سنہ 2010 میں امریکہ میں ایک اہم تحقیق کا آغاز کیا۔ اُس وقت تک مرنے سے قبل مریض کو پیش آنے والے اس نوعیت کے تجربات کے بارے میں زیادہ تر کہانیاں ڈاکٹر یا مریض کے علاوہ کوئی تیسرا فرد بتاتا تھا، لیکن ڈاکٹر کیر نے سائنسی بنیادوں پر ایک باضابطہ سروے شروع کیا۔

اس سروے میں انھوں نے مرنے سے قبل بہت سے مریضوں کا خود انٹرویو کیا اور ان کا معائنہ کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ الجھن یا ہیلوسینیشن کے زیر اثر تو نہیں۔

ان کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں یہ تجربات کس فریکوئنسی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان کی ابتدا موت سے کتنے دن پہلے شروع ہو جاتی ہے، اس دوران مریض کیا محسوس کرتے ہیں اور لواحقین پر اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔

اس سروے کے نتائج پہلے ہی متعدد سائنسی مضامین میں شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر کیر کو ابھی تک ان تجربات کی وضاحت کرنے کے لیے کوئی حتمی جواب نہیں ملا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ کو سمجھنا ان کے مطالعے کا بنیادی موضوع نہیں تھا۔

سنہ 2020 میں ڈاکٹر کیر نے کتاب ’ڈیتھ از بٹ اے ڈریم: فائنڈنگ ہوپ اینڈ مینیگ ایٹ لائفز اینڈ‘ (موت ایک خواب: زندگی کے اختتام پر امید اور معنویت کی تلاش) شائع کی۔ ہسپانوی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا 10 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

بی بی سی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے زندگی کے اختتام کے ان تجربات کے بارے میں بات کی ہے۔ ذیل میں ان کا یہی انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔

علامتی تصویر
Getty Images

سوال: آپ نے 1999 میں انتہائی بیمار مریضوں کے ساتھ کام کرنا اور زندگی کے اختتامی تجربات کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ آپ 2010 سے اس موضوع پر سائنسی تحقیق کر رہے ہیں، اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں اور اُن کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ اتنے سالوں کے بعد، آپ نے ان تجربات سے کیا سیکھا ہے؟

جواب: ’مجھے لگتا ہے کہ مرنے کا عمل اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے جس کا ہم (یا لواحقین) مشاہدہ کرتے ہیں۔ مرنے کا عمل آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور مرنے والا اُن چیزوں پر توجہ مرکوز کیے ہوتا ہے جو اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھیں، زندگی میں حاصل کی گئی کامیابیاں اور رشتے۔‘

’اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رشتے مرنے والے کی زندگی میں بہت معنی خیز اور عمدہ انداز میں واپس آتے ہیں، جو اس زندگی کی توثیق کرتے ہیں جو ہم گزار چکے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے مرنے کے خوف کو کم کرتے ہیں۔‘

’ہم جس چیز کی توقع کرتے ہیں وہ ذہنی پریشانی میں اضافہ ہے کیونکہ لوگوں کو اپنی زندگی کے اختتام کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر ہم مرنے والے شخص میں ان جذبات کو دیکھ نہیں پاتے۔‘

’لہٰذا، یہ اس کے برعکس ہے جو ہم موت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ موت کے بارے میں ہمارا جو نظریہ ہوتا ہے، موت کے نزدیک ہم ویسا تجربہ نہیں کرتے۔‘

سوال: آپ کی تحقیق کی بنیاد پر، زندگی کے اختتام پر پیش آنے والے یہ تجربات کتنے عام ہیں؟

جواب: ’ہماری تحقیق کے مطابق مرنے کے قریب تقریباً 88 فیصد لوگوں نے کم از کم اس نوعیت کے ایک تجربے کا سامنا کیا۔ ہماری شرح (88 فیصد) شاید اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ ہم مرنے کے قریب مریضوں سے روزانہ کی بنیاد پر بات چیت کرتے ہیں تاکہ ان کے تجربات کے بارے میں پتہ لگایا جا سکے۔‘

’مرنا ایک قدرتی عمل ہے۔ جب آپ آغاز ہفتہ (یعنی سوموار) کو مریض سے بات چیت کرتے ہیں، تو عین ممکن ہے کہ آپ کو مریض کی جانب سے ملنا والا ردعمل اختتام ہفتہ (یعنی جمعہ) کو ملنے والے ردعمل سے انتہائی مختلف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ان سے ان کے تجربات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ جیسے جیسے مریض اپنی موت کے قریب پہنچتا ہے تو اس نوعیت کے واقعات پیش آنے کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

سوال: موت سے قبل مرنے والے کو کس طرح کے مناظر اور خواب نظر آتے ہیں؟

جواب: ’مرنے کے قریب انٹرویو کیے گئے افراد میں سے تقریباً ایک تہائی سفر جیسے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ اس سفر میں ان کے ساتھ اُن کے وہ پیارے اور محبت کرنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ان سے پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے کوئی اپنی موت کے قریب پہنچتا ہے تو مردہ افراد کو دیکھنے کی فریکوئنسی بڑھ جاتی ہے۔ مرنے والے کے لیے مرحوم افراد کو دیکھنا اور انھیں محسوس کرنا طمانیت اور سکون کا باعث بنتا ہے۔‘

’لہذا، جیسے جیسے لوگ موت کے قریب پہنچتے ہیں تو چونکہ اس نوعیت کے واقعات پیش آنے کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے تو نتیجتاً وہ زیادہ پرسکون محسوس کرتے ہیں۔‘

’ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں میں کسے دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو مرنے والے کی زندگی میں انتہائی قریب تھے یا جن سے انھیں بہت زیادہ محبت تھی، جنھوں نے زندگی میں مرنے والے کا ہر موقع پر ساتھ دیا اور ان کی حفاظت کی۔ سادہ الفاظ میں وہ افراد جو مرنے والے کے بہت قریب تھے۔ اور ان افراد میں والدین میں سے کوئی ایک یعنی صرف ماں اور صرف باپ یا دونوں بھی سرفہرست ہیں، یا کوئی بھائی یا بہن۔‘

سوال: بعض اوقات مریض خواب دیکھتے ہیں، لیکن دیگر اوقات میں وہ جاگنے کی حالت میں تجربے سے گزرتے ہیں۔ کیا ان دونوں قسم کے تجربات میں فرق ہے؟

جواب: یہ ایک ایسی چیز ہے جس نے ہمیں حیران کر دیا ہے۔ ہم نے اپنی موت کے قریب افراد سے اس بارے میں پوچھا تو ملنے والے جوابات ملے جلے رجحان کی عکاسی کر رہے تھے۔¬

’اور ہم نہیں جانتے کہ اس معاملے سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ مرنے سے قبل نیند کا دورانیہ بتدریج بڑھتا ہے۔ دن اور رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ مریض اپنے تجربات کے حقیقی ہونے کو سوالنامے پر 10 میں سے 10 درجے دیتے ہیں، اس لیے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے۔‘

’ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی انتہائی واضح خواب دیکھ رہے ہوں، اتنا واضح کہ جس کے دوران وہ محسوس کریں کہ جیسے جیسے وہ جاگ رہے ہیں۔ مگر ہم واقعی نہیں جانتے۔ لیکن واضح طور پر اگر ہم اپنے مریضوں کی باتوں پر اعتبار کرتے ہیں تو معاملہ یہ ہے کہ ان تجربات سے گزرتے ہوئے وہ ہمیشہ سو نہیں رہے ہوتے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

سوال: بچوں اور بڑوں کی زندگی کے اختتامی تجربات میں کیا فرق ہے؟

جواب: بچے اسے بہتر طریقے سے محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس وہ فلٹر نہیں ہیں جو بالغوں کے پاس ہوتے ہیں۔ بچوں میں قدرتی طور پر ایک کُھلا پن ہوتا ہے۔ وہ تصورات اور حقیقت کے درمیان واضح سرحدیں نہیں کھینچتے۔ ان کے ذہن میں موت کا بھی کوئی واضح تصور موجود نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اس لمحے میں ہی جی رہے ہوتے جس سے وہ گزر رہے ہوتے ہیں۔ وہ واقعات اور اپنے اختتام کو سلسلہ وار انداز میں نہیں سوچتے ہیں۔‘

’ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بچوں کے یہ تجربات بہت تخلیقی اور اپنی نوعیت میں رنگین ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ فطری طور پر جانتے ہیں کہ اُن کا کیا مطلب ہے۔‘

سوال: مرنے والوں کے لواحقین اور قریبی لوگوں پر ان تجربات کا کیا اثر پڑتا ہے؟

’ہم نے اس معاملے پر دو مقالے شائع کیے ہیں جن میں 750 افراد کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں نتائج دلچسپ ہیں۔ جس انداز میں مرنا والا ہمیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو رہا ہے، وہ اہم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز مرنے والے کے لیے اچھی ہے وہ اس کے پیاروں کے لیے بھی اچھی ہے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

آپ نے نیورو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، لیکن دوسری جانب آپ کہتے ہیں کہ آپ مرنے والوں کے ان تجربات کی اصل کی وضاحت نہیں کر سکتے ہیں۔ تو ایک معالج کے طور پر اس موضوع پر آپ کا نقطہ نظر کیسے بتدریج تبدیل ہوا ہے؟

’میں مودبانہ عرض کروں گا۔ میں نے ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جہاں میں جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ اتنا گہرا اور معنویت سے بھرپور تھا اور مریض کے لیے اس تجربے کے معنی اتنے واضح اور درست تھے کہ مجھے اس تجربے کو محض دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ایک طمانیت سے بھرپور عمل میں دخل اندازی کر رہا ہوں۔‘

’مجھے اس کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش کرنا ایک بیکار عمل لگ رہا تھا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ احترام کرنا ضروری ہے، یہ حقیقت کہ میں اصل اور عمل کی وضاحت نہیں کر سکتا تھا، مریض کے تجربے کو غلط ثابت نہیں کرتا تھا۔‘

’اور پھر کچھ مواقع پر مرنے والے سے سوال پوچھنے کے بجائے میں صرف ایک طرف بیٹھا رہا اور بس وہاں موجود رہا اور دیکھتا رہا۔ مجھے کسی ایسی چیز کو طبی توجیح بنانے غلط لگا جو اس شخص کی زندگی میں انتہائی ذاتی عمل تھا اور اس میں مداخلت کرنا واقعی میرا کام نہیں تھا۔‘

سوال: میں جانتا ہوں کہ آپ نے کئی بار کہا ہے کہ آپ اس سوال سے نفرت کرتے ہیں، لیکن پھر بھی میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ مذہبی شخص ہیں؟ کیا آپ موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا اس موضوع پر کام کرنے کے دوران آپ کے مذہبی عقائد میں تبدیلی رونما ہوئی؟

’جب سے ہم نے یہ تحقیق شروع کی ہے تب سے ہم انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مرنے سے قبل پیش آنے والے تجربات کی موت سے آگے تشریح نہ کریں۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم مرنے کے عمل کی تشریح کریں بلکہ صرف ہم مرنے کے عمل کو سمجھنا چاہتے تھے۔ اسے ایک راز کے طور پر دیکھنا تھا، مریض کے الفاظ اور تجربے کا احترام کرنا تھا، اس کی وضاحت، کوئی دریافت یا تبصرے کی کوشش کیے بغیر۔ ہم نے ہر ممکن حد تک معروضی رہنے کی کوشش کی۔‘

موت ایک دروازے کی طرح ہے جس پر چابی لگانے کی ایک جگہ موجود ہے۔ آپ چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم تشریح نہ کرنے میں بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

’لیکن اس وضاحت کے بعد میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں مذہبی ہوں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میں یقینی طور پر اس سب کو کھلے پن اور احترام کے ساتھ دیکھتا ہوں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے پر میرے 25 سال کے تجربے میں مجھے جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی ایک بہتر کہانی ہے اور میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے۔‘

’میں نے 95 سالہ شخص کو دیکھا ہے جس نے پانچ سال کی عمر میں اپنی ماں کو کھو دیا تھا۔ مگر ماں کو کھونے کے 90 سال بعد مرنے سے قبل وہ اپنی ماں کی آواز کو سنتا ہے اور اس کی خوشبو کو سونگھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

’یہاں آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اور بھی ہے۔ موت اور مرنے کے عملکو کسی خالی چیز کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.