قاہرہ 52: ’اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا کہ ہم جنسی تعلق قائم کرنے کے پیسے لیتے ہیں‘

مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل پر تیرتی ایک کشتی پر کچھ افراد اکھٹے تھے لیکن کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر بعد یہاں موجود افراد میں سے کچھ کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی۔ مگر ایسا کیا ہوا تھا اس کشتی پر اور یہ افراد کون تھے۔

مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل میں ایک کشتی پر کچھ افراد اکٹھے تھے لیکن کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر بعد یہاں موجود افراد میں سے کچھ کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی۔

مگر ایسا کیا ہوا تھا اس کشتی پر اور یہ افراد کون تھے۔

’قاہرہ 52‘ کے نام سے مشہور مردوں کے ایک گروہ کو مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل میں اس کوئن بوٹ نامی کشتی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ کشتی مصر میں مرد ہم جنس پرستوں کا نائٹ کلب تھی اور مصر کی پولیس نے اس کشتی سے 52 مردوں کو گرفتار کیا، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ہم جنس پرستی کے مقدمات قائم کیے۔

یہ مصر کی تاریخ کا وہ واقعہ ہے جسے مہینوں تک بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی اور عالمی ممالک نے ان افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے پر مصر کے اقدامات کی مذمت کی۔

بی بی سی کے پروگرام وٹنس ہسٹری کے میزبان ڈین ہارڈن نے اس واقعے میں شامل ایک ایسے ہی شخص عمر (فرضی نام) سے بات کی ہے جو اس دن اس کشتی پر موجود تھے۔

’میں خوشحال زندگی گزار رہا تھا، نوکری تھی، گھر تھا اور حکومت کے ساتھ میرا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا لیکن بس اس شام اچانک میری زندگی یکسر تبدیل ہو گئی۔‘

یہ کہنا ہے عمر کا جنھیں دریائے نیل ’قاہرہ 52‘ عادی مجرم اور بے حیائی کو پھیلانے کے لیے گرفتار اور قید کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مصر میں ہمیشہ سے بطور ایک ہم جنس پرست مرد کے زندگی گزارنا مشکل تھا اور لوگ ہم جنسی کے متعلق کھل کر بات نہیں کرتے تھے کیونکہ اس مشرق وسطیٰ میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے ڈین ہارڈین کو اپنے کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ کیسے اس واقعے کے بعد ان سمیت متعدد افراد کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی اور ان پر کیسے تشدد کیا گیا۔

’میں شاید غلط وقت پر غلط جگہ پر تھا‘

عمر نے بتایا کہ ان کا اس شام اس کشتی یعنی ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن ان کی کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی جن کے اصرار پر وہ وہاں چلے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں شاید غلط وقت پر غلط جگہ پر تھا۔‘

عمر نے بتایا کہ ’وہ ایک خوبصورت شام تھی، کشتی دریائے نیل پر دھیرے دھیرے تیر رہی تھی، سب لوگ وہاں خوش تھے، میں کشتی پر بنے ایک کیبن کی کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور پس منظر میں موسیقی اور چاند کے پانی پر پڑتے عکس نے اس کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔

عمر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وہاں کوئی خطرے کا احساس نہیں تھا، سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر پھر اچانک نصف شب کے قریب پولیس نے وہاں چھاپہ مارا۔‘

عمر نے بتایا کہ پولیس اہلکار سادہ لباس میں تھے اس لیے کوئی یہ جان نہیں سکا کہ کیا ہو رہا ہے، بس اچانک ڈانس فلور پر افراتفری مچ گئی اور موسیقی بند ہو گئی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اسی اثنا میں ایک پولیس اہلکار میری جانب آیا اور اس نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ طلب کیا، میں نے جب اسے اپنا شناختی کارڈ دیا تو اس وقت سب ہنس رہے تھے، حتیٰ کہ وہ دوست بھی جن کے ساتھ میں وہاں گیا تھا۔‘

عمر کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد اس نے میرا بازو تھاما اور مجھے ایک وین میں ڈالا جہاں بہت سے مرد تھے جنھیں میں پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہاں تین پولیس وین تھیں جن میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں اندرون شہر کے ایک پولیس تھانے لے گئے جہاں ہماری ملاقات پولیس چیف سے ہوئی۔

دوران حراست پولیس کا تشدد: ’اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا کہ ہم آپس میں جنسی تعلق قائم کرتے اور اس کے پیسے لیتے ہیں‘

عمر نے دوران حراست ہونے والے تشدد کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ (پولیس اہلکار) ہمیں ایک ایک کر کے ایک بڑے کمرے میں لے کر گئے اور وہاں ایک شخص کے ہاتھ میں کوڑا تھا، اگر آپ وہاں اقبال جرم نہ کرتے اور ان سے اس بارے میں سوال کرتے تو آپ کو کوڑے مارے جاتے۔

عمر کا کہنا ہے کہ ’دوران حراست پولیس چیف نے تشدد کر کے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ ہم ہم جنس ہیں، آپس میں جنسی تعلق قائم کرتے ہیں اور اس کے لیے پیسے لیتے ہیں۔‘

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ دوران حراست ایک سوال جو مجھ سے بار بار کیا گیا وہ یہ تھا کہ تم نے ایک مرد سے کتنی مرتبہ شادی کی ہے، جس پر میں حیران تھا کہ یہ کیسا سوال ہے اور اس کا کوئنز بوٹ سے کیا تعلق ہے۔ یہ سب کچھ بہت حوفناک تھا۔‘

اس ابتدائی تفتیش کے بعد کچھ مردوں کو چھوڑ دیا گیا جن میں زیادہ تر غیر ملکی افراد تھے باقیوں کو ایک انتہائی سکیورٹی والی جیل منتقل کر دیا گیا جہاں جاسوسی، حکومت مخالف افراد اور دہشتگردوں کو رکھا گیا تھا۔

عمر بتاتے ہیں کہ ’وہاں ہم سب کو ایک بڑے سیل میں بند کر دیا گیا، لوگ وہاں لڑ رہے تھے، چیخ رہے تھے اور یہ سب ایک بھیانک خواب جیسا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں ہمیں نہ پانی، نہ کھانا دیا گیا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہم کہاں ہے، ہمارے خاندانوں سے بھی ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ میرے دوست مجھے ہر جگہ تلاش کر رہے تھے اور انھیں کہا گیا کہ اس معاملے سے دور رہیں کیونکہ یہ ایک اہم حکومتی معاملہ ہے۔‘

عمر کے مطابق ’قاہرہ 52‘ کا معاملہ توہین مذہب اور شیطان کی پوجا کرنے کا مقدمہ بنا دیا گیا تھا۔ اور دراصل یہ اس گروہ کے سربراہ جو ایک بااثر مصری خاندان سے تعلق رکھتے تھے کے خلاف حکومتی کا سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا مقدمہ تھا۔

مقامی میڈیا میں لکھا گیا ’یہ 52 مرد آپس میں شادی کرتے اور شیطان کی پوجا کرتے ہیں‘

اس مقدمے نے جہاں عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی وہیں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سمیت معروف پاپ سٹار ایلٹن جون کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

عمر بتاتے ہیں کہ ’فرانس، سویڈن، کینیڈا، امریکہ ہر جگہ کا میڈیا ہمارے مقدمے کے متعلق بات کر رہا تھا، انھوں نے اپنے نامہ نگاروں کو اس 52 مردوں کے متعلق رپورٹنگ کرنے کے لیے مصر بھیجا تھا جبکہ اس کے برعکس مصر کا مقامی میڈیا ہمارے بارے میں لکھ رہا تھا کہ ’یہ 52 مرد آپس میں شادی کرتے ہیں، شیطان کی پوجا کرتے ہیں، ہمارے نام، تصاویر اور حتیٰ کے گھروں کے پتے بھی شائع کیے گئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مقامی اخباروں کے اس اقدام نے نہ صرف میرے بلکہ دیگر افراد کے خاندانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا، کیونکہ اس گروہ میں شامل تمام افراد کے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں تھے۔‘

واضح رہے کہ اس وقت مصر میں ہم جنس پرستی کے خلاف کوئی واضح قانون موجود نہیں تھا اور ان افراد پر برائی اور بے حیائی پھیلانے کا مقدمہ چلایا گیا۔ اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انھیں ایسے تذلیل آمیز طبی معائنے کرنے کا کہا گیا جس کی کوئی سائنسی منطق نہیں تھی۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تنظیم (آئی جی ایل ایچ آر سی) کے مطابق، مردوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کی’ہم جنس پرستی کو ثابت کرنے‘ کے لیے فرانزک معائنے کیے گئے۔ تمام 52 مردوں کو دن میں 22 گھنٹے تک بغیر بستر کے دو تنگ سیلوں میں رکھا جاتا تھا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں، امریکی کانگریس کے ارکان اور اقوام متحدہ نے ان مقدمات کی مذمت کی تھی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران، ہم جنس پرستی کو ’غیر مصری‘ قرار دیا گیا تھا۔

ہتک آمیز طبی معائنہ اور 23 مرد ’بے حیائی کی عادت‘ کے مجرم قرار

عمر بتاتے ہیں کہ ’یہ جاننے کے لیے کہ آپ ہم جنس پرست ہیں یا نہیں ہیں، ہمیں فرانزک ٹیم کے پاس طبی معائنے کے لیے بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہمارے مقعد کا معائنے کیا کہ کبھی اس میں کوئی دخول ہوا یا نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج تک وہ ایسے ہی جانچ کرتے ہیں، اور یہ انتہائی ہتک آمیز تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مصری پولیس کے پاس ہمیں مجرم ثابت کرنے کا صرف یہ ہی طریقہ تھا، اگر فرانزک پولیس کسی شخص کے معائنے کے بعد یہ کہتی کہ انھیں دخول کے شواہد ملے ہیں تو اس شخص کو دو سال قید اور دو سال تک نگرانی میں رکھا جاتا۔‘

14 نومبر 2001 کو، ان میں سے 23 مردوں کو ’بے حیائی کی عادت‘ کا مجرم قرار دیا گیا، اور دیگر 29 افراد کو چھوڑ دیا گیا۔

عمر کو بھی دو سال کی قید کی سزا سنائی گئی لیکن ان کی جانب سے اس وقت کے مصری صدر حسنی مبارک کو دی گئی ایک اپیل کے نتیجے میں ان کی سزا میں کمی کر دی گئی۔

عمر اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ شاید مئی کے وسط کا ایک دن تھا جب میں جیل میں بیدار ہوا تو مجھے کہا گیا کہ تم آج رہا ہو کر گھر جا رہے ہو۔ اور میں پریشان ہو گیا۔ بعدازاں مجھے پتا چلا کہ میرے سزا ختم کر دی گئی ہے کیونکہ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے حسنی مبارک کو کہا تھا کہ اس 52 افراد کو چھوڑ دیا جائے۔‘

’مصری حکومت کی جانب سے ان افراد کو چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مصر کو امریکی امداد درکار تھی اور کانگریس نے حسنی مبارک سے کہا کہ جب تک یہ 52 افراد قید میں ہیں آپ کو امداد نہیں مل سکتی۔ ‘

رہائی کے بعد کی زندگی: ’جو 23 سال قبل ہوا اس کے برے خواب آج بھی آتے ہیں‘

رہائی کے بعد کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد میں گلی سے نہیں گزر سکتا تھا، لوگ مجھے پر فقرے کستے، انگلی اٹھاتے تھے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اس بات کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے قبل میری ایک زندگی تھی، میں نوکری تھی، میں مصری تھا، میری حکومت کو میرا تحفظ کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا اپنی جنس سے متعلق فیصلہ میرا اپنا ہے، کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ مجھ سے یہ آزادی چھینے۔‘

عمر کا کہنا ہے کہ جو کچھ آج سے 23 سال قبل ہوا اس کے برے خواب آج بھی انھیں آتے ہیں۔ وہ اس سب کے بعد مصر میں نہیں رہ سکے اور جلد ہی ہجرت کر کے برطانیہ آ گئے۔

وہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ گر کر دوبارہ کھڑا ہوتا ہے، اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.