گلگت بلتستان میں پہیہ جام ہڑتال: ’مہنگا آٹا نہیں خرید سکتے، ٹیکس نہیں دے سکتے‘

پاکستان کے زیر انتظام شمالی علاقے گلگت بلتستان میں آٹے پر سبسڈی ختم کرنے، مختلف سروسز پر ٹیکس عائد کرنے اور دیگر آئینی حقوق کے لیے تقریباً ایک ماہ سے جاری احتجاج اب پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام شمالی علاقے گلگت بلتستان میں آٹے پر سبسڈی ختم کرنے، مختلف سروسز پر ٹیکس عائد کرنے اور دیگر آئینی حقوق کے لیے تقریباً ایک ماہ سے جاری احتجاج اب پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

مقامی صحافی رجب علی قمر کے مطابق بلتستان ڈویژن کے چاروں اضلاع میں دو روز سے مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال جاری ہے اور کسی بھی ضلع میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چل رہی جبکہ چاروں اضلاع سکردو، شگر، کانچھے اور گھرما میں اس بارے میں جلسے جلوس اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔

دیامیر اور استور کے دونوں اضلاع جبکہ گلگت ڈویژن میں بھی شدید احتجاج جاری ہے۔ گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر میں بھی پہیہ جام اور ہڑتال ہے۔ گلگت میں مظاہرین نے شاہراہ ریشم بلاک کر رکھی ہے۔

گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسن علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ماہ تک پورے گلگت بلتستان میں احتجاج کیا مگر کسی نے ہماری بات نہیں سنی، جس کے بعد اب یہ دو روزہ پہیہ جام ہڑتال کی گئی ہے اور اس وقت گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے لوگ لانگ مارچ کرکے گلگت پہنچ رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’شام اور رات تک قافلے گلگت پہنچ جائیں گے، جس کے بعد ہم سب مل کر بیٹھیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم سوچیں گے کہ کیا ہمیں ریاست پاکستان سے اپنا حق مانگنا ہے یا اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق حق مانگنا ہے۔‘

جبکہ صوبائی حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے نہ ہی گندم یا آٹے سے سبسڈی ختم کی ہے اور نہ ہی کوئی نیا ٹیکس عائد کیا ہے۔ حکام کے مطابق مظاہرین سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور جلد ہی اس کا مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔

’مہنگا آٹا نہیں خرید سکتے، ٹیکس نہیں دے سکتے‘

اس احتجاج میں شریک ضلع دیامیر کے رہائشی محمد احتشام کا کہنا ہے کہ چند ہفتے قبل تک ہمیں 30 کلو کا آٹا تقریباً آٹھ سو روپے میں ملتا تھا اب یہ 17 سو روپے میں ملتا ہے۔ ان کے مطابق ’میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے اتنا مہنگا آٹا نہیں خرید سکتا، میری اتنی سکت ہی نہیں ہے۔اب میرے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ میں احتجاج کروں۔‘

گلگت کے ایک دکاندار ناصر علی کا کہنا تھا کہ ’میرا کاروبار سال میں چار ماہ چلتا ہے۔ اب مجھ پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ میں ٹیکس کہاں سے دوں میں تو عوام سے وصول کروں گا اور ہمارے عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی قوت خرید ہی نہیں ہے۔ اس لیے اب احتجاج میں شامل ہیں۔‘

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن گلگت بلتستان اسمبلی اور حکمران اتحاد میں شامل امجد حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے لیے گندم پر سبسڈیکا آغاز سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا، جس کا مقصد غریب خطے کے عوام کو سہولت فراہم کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ مشرف دور حکومت تک چلتا رہا مگر مشرف دور حکومت میں گندم سے سبسڈیکو واپس لے کر آٹا پر دے دی گئی اور میں اس کچھ کمی لائی گئیجس کے بعد آٹا پر کچھ سبسڈی گذشتہ حکومت نے کم کی تھی اور اب اس حکومت نے ہماری مخالفت کے باوجود یہ سبسڈی مزید کم کر دی، جس کے بعد عوام مشتعل ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔

امجد حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں نگراں حکومت ہے، وہ فیصلے نہیں کر سکتی، حالانکہ نگراں حکومت کو گلگت بلتستان کے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ اس وقت یہ احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔ قیمتوں کا بڑھنا بھی غلط ہے اس لیے مل بیٹھ کر فیصلے کر کے حالات کو پرامن رکھا جائے۔‘

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن گلگت بلتستان اسمبلی اور حکمران اتحاد میں شامل امجد حسین ایڈووکیٹ کے مطابق ٹیکس نافذ کرنے والی بات اتنی ٹھیک نہیں ہے۔ سابقہ دور حکومت میں ایک بل پاس کر کے ریونیو اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اب تک نافذ العمل نہیں ہے۔یعنی عوام سے کوئی بھی ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا ہے۔یہ بل اس وقت نافذ العمل ہو گا، جب سیل ٹیکس آن سروسز کا بل پاس ہوگا۔

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات پر گلگت بلتستان میں آٹا سبسڈی پر بات ہوئی ہے، جس میں ریڈیو پاکستان کے مطابق صدر مملکت نے اظہار خیال کیا کہ وہ پر امید ہیں کہ آٹا سبسڈی کا معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔

رپورٹ کے مطابق صدر مملکت نے کہا کہ نگران وزیر اعظم گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں سے آٹا سبسڈی معاملے پر ملاقات کے لیے تیار ہیں۔

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟

احسن علی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا گلگت بلتستان میں جو احتجاج دیکھ رہی ہے یہ دہائیوں کی محرومی کا نتیجہ اور عوامی غم و غصہ ہے۔ پاکستان اور گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی اسمبلی کے پاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کوئی ایسا اختیار نہیں ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں ٹیکس نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کرے جبکہ انھوں نے ٹیکس کے لیے قانون سازی کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا احتجاج آٹا اور گندم کی سبسڈی ہی پر نہیں ہے۔ ہم اپنی محرومیوں کی بات کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 20، 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ ہمارے لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ آئین میں ہمارے بنیادی حقوق کی بات نہیں کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کو اختیارات حاصل نہیں ہے۔ پانی ہمارا استعمال ہوتا ہے اس پر بات ہی نہیں ہوتی۔‘

احسن علی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ تنازع کشمیر میں گلگت بلتستان ایک فریق ہے اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق ریاست پاکستان صرف اور صرف ایک عبوری سیٹ اپ کے تحت کام کر رہی ہے مگر اس عبوری سیٹ اپ میں ہمارے حقوق کا خیال رکھنے کی جگہ ہمارے وسائل لُوٹے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سے سیاحت کی آمدن، معدنیات، بین الاقوامی تجارت اور اس کے ٹیکس سب کچھ وفاق لے جاتا ہے جبکہ بدلے میں اس علاقے میں کوئی بھی ترقی نہیں دی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بتا دیا جائے کہ کون سے روزگار کے مواقع دیے گئے۔ کوئی انڈسڑی لگائی گئی، کچھ ایسا کیا گیا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہو؟‘

احسن علی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے وسائل پر قبضہ کر کے ہمیں غریب سے غریب تر اور محروم سے محروم تر کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کے منھ سے آٹا بھی چھین لیا گیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے وسائلہمیں دے دو۔ ہمیں ہمارا اختیار واپس کردو۔ہم خود اپنے لیے سسٹا آٹا اور وسائل کا انتظام کرلیں گے۔‘

صوبائی حکومت کا کیا کہنا ہے؟

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے میڈیا کے لیے معاون خصوصی ایمان شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ان سردیوں میں ایک زبردست سیاسی سرگرمی ہو رہی ہے۔ اس احتجاج کے حوالے سے صوبائی حکومت نے ایک مثبت رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ لوگوں کی بات کو سنا جا رہا ہے اور ایک مذاکراتی کمیٹی بنا دی ہے، ہمیں امید ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں مذاکرات کا بہتر نتیجہ نکلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کو پاکستان سے آٹا کی سبسڈی پر سالانہ ساڑھے نو ارب روپے کا بجٹ ملتا ہے۔ گلگت بلتستان نے اس رقم میں گندم خرید کر گلگت بلتستان کے لوگوں کو سبسڈی فراہم کرنا ہے۔

ایمان شاہ کا کہنا تھا کہ اب یہ بات سمجھنا ہو گی کہ سبسڈی کا تعلق مارکیٹ ریٹ سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کی مارکیٹ میں گندم سستی تھی تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا مگر اب گندم مہنگی ہو چکی ہے۔ گلگت بلتستان کی تقریباً 17 لاکھ آبادی کے لیے سالانہ سو کلو کی 15 لاکھ گندم بوریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان میں گندم مہنگی ہوئی تو اس وقت ہمیں وفاق سے ملنے والے بجٹ میں گندم خرید کر پرانی سبسڈی پر گندم فراہم کی گئی تویہ خریداری ڈیڈھ لاکھ بوری کم ہوئی، جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں آٹا کی قلت کے مسائل پیدا ہو گئے تھے۔

ایمان شاہ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد جب پاکستان سے بات کی گئی تو وہاں سے ہمیں کہا گیا کہ ہم گندم کی قیمت فروخت کو بڑھا دیں اور اس بجٹ میں عوام کو سہولت فراہم کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بہت غلط ہے کہ سبسڈی ختم کی گئی ہے یا کم کی گئی ہے بجٹ وہی ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ آٹا کی قیمت صرف 14 روپے کلو بڑھی ہے۔ اس وقتگلگت بلتستان حکومت خود سو کلو گندم کی بوری تقریباً ساڑھے 14 ہزار روپے میں خرید رہی ہے جبکہ قیمت فروخت 2200 روپے ہے۔ پاکستان میں آٹا 136 روپے کلو ہے جبکہ گلگت بلتستان میں 36 روپے کلو ہے۔

ایمان شاہ کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ضرور موجود ہے اور اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ ہماری حکومت نے ایک ہائیڈل پراجیکٹ سسٹم میں شامل کردیا ہے اور مزید پر کام جاری ہے۔ امید کر رہے ہیں کہ جون جولائی میں مزید پراجیکٹ بھی مکمل کرکے لوڈشیڈنگ کو بارہ تیرہ گھنٹے تک لے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان پہلے ہی ان ڈائریکٹ جی ایس ٹی وغیرہ دے رہا ہے۔ یہ کہنا کہ حکومت پاکستان نے کوئی ٹیکس لگایا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ گلگت بلتستان کی اسمبلی نے مقامی طور پر ریونیو اکھٹا کرنے کے لیے سروسز پر معمولی ٹیکس عائد کیے ہیں جو کہ ابھی نافذ العمل نہیں ہیں۔ اس میں یہ ٹیکس کچھ ہوٹلوں اور سروسز پر نافذ ہوں گے اور یہ بہت معمولی ٹیکس ہوں گے۔

ایمان شاہ کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کشمیر کے تنازع کا حصہ ہے۔ جب بھی رائے شماری ہو گی اس میں گلگت بلتستان کے عوام بھی حصہ لیں گے۔

گلگت بلتستان کی حکومت مزید اختیارات حاصل کرنے کے لیے وفاق کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس پر مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت عالمی ادارے کی حدود میں رہتے ہوئے مزید اختیارات حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھے گی۔‘

پہیہ جام سے عوام کو مشکلات کا سامنا

پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کے باعث گگلت بلتستان کے اندر اور ملک کے مختلف دیگر شہروں کی طرف جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی ہے، جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان ہی میں سے ایک نصیر احمد ہیں، جو راولپنڈی سے ہنزہ اپنے آبائی علاقے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی، جس کے بعد ہم کچھ لوگوں نے مل کر ایک ٹیکسی بک کی جسے ہم نے معمول سے کئی گنا زیادہ کرایہ ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق ایسے لوگ جو اتنا کرایہ نہیں دے سکتے تھے مایوس ہو کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔

نعمان علی کے مطابق انھوں نے گلگت سے چلاس تک کئی گنا زیادہ کرایہ ادا کرنے کے علاوہ ذہنی کوفت بھی برداشت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت میں انھوں نے کئی خواتین کو دیکھا ہے اور کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے، جو اپنے ضروری امور کی انجام دہی کے لیے مختلف علاقوں میں جانا چاہتے تھے مگر اس میں انھیں مشکلات کا سامنا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.